اُجلے، سفید کُرتے پاجامے میں ملبوس، سر پرقراقلی ٹوپی، عینک لگائے، روشن چہرے اور انتہائی جاذبِ نظر شخصیت کے مالک، یہ تھے، معروف مزاح نگار، شاعر و ادیب اور ماہرِ تعلیم، پروفیسر عنایت علی خان۔ 10 مئی 1935ء میں ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے۔ نومبر 1948ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور حیدرآباد، سندھ میں مقیم ہوئے۔ گورنمنٹ اسکول، حیدرآباد سے میٹرک اور سٹی کالج، حیدرآباد سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ 1962ء میں سندھ یونی ورسٹی سے ایم اے کا امتحان دیا اور یونی ورسٹی بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔
اردو کی درسی کتب برائے مدارس، صوبہ سندھ مقابلے کی بنیاد پر لکھیں اور چھے کتابوں پر انعام حاصل کیا۔ تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔ بنیادی طور پر یہ طنزومزاح کے شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اس اسلوب کی وجہ سے انہیں ’’اکبر ِثانی‘‘ بھی کہا جاتا۔ پروفیسر عنایت علی خان نے بچّوں کے لیے کہانیوں اور نظموں کی دو کتابیں بھی لکھیں، ان کی نظم ’’بول میری مچھلی‘‘ کے کئی مزاحیہ قطعات مشہور ہوئے، جب کہ یہ شعر ؎حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا.....لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر۔ زبان زدِعام ہوا۔
پروفیسر عنایت علی خان خلوص و محبت، اخلاقی اقدار کے حامل اورعاجزی و انکساری کا پیکر تھے۔چوں کہ آپ کا شمار حیدر آباد کی معروف شخصیات میں ہوتا تھا، اس لیے راقم کے اسکول کے پرنسپل، اکثر پروگرامز میں انہیں بطورِ خاص مدعو کرتے۔ وہ جب بھی ہمارے اسکول تشریف لاتے، اسکول کا ہیڈ بوائے ہونے کی حیثیت سے انہیں اسٹیج پر بُلانا اور گُل دستہ پیش کرنا میری ذمّے داری ہوتی۔
علاوہ ازیں، مَیں اپنے اسکول میں بزم ِ ساتھی کا ذمےّ دار بھی تھا۔ پروفیسر صاحب اسکول کی سالانہ تقریب ِتقسیم ِ انعامات میں لازماً تشریف لاتے اور بچّوں کے ساتھ حسب ِ عادت گھُل مل جاتے۔ آپ کا بسم اللہ والا کھیل بچّوں میں بہت مقبول تھا۔ ایک دفعہ ہمارے پرنسپل صاحب مجھ سمیت اسکول کے چند طلبہ کو علی گڑھ لان، کراچی لے گئے، جہاں یومِ دفاع پاکستان کے حوالے سے ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔
اس موقعے پر مشہور جنگی پائلٹ اور1965ء کی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم کے علاوہ عنایت علی خان نے جوشِ خطابت سے سامعین کے لہو گرمادیئے۔ ایک مرتبہ معروف شاعر، اعجاز رحمانی کے اعزاز میں ایک شام منعقد کی گئی۔ تقریب کی صدارت عنایت علی خان فرمارہے تھے۔ اس موقعے پر مَیں نے اعجاز رحمانی کی ایک نعت خوش الحانی سے پڑھی، تو دونوں مشاہیر بے حد خوش ہوئے اوردل کھول کے داد دی۔سندھ کے معروف شاعر، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی پر ہم نے ایک پروگرام منعقد کیا، جس میں شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒکی فن، شخصیت اور اُن کی شاعری پر بڑے بڑے ماہرین نے خطاب کیا، لیکن پروفیسر عنایت علی خان نے سندھی زبان میں شاہ صاحب کے اشعار سمیت اُن کا فلسفہ پیش کرکے محفل لُوٹ لی۔
تقریب میں افتتاحی کلمات ادا کرنے کے لیے جن صاحب کو آنا تھا، شومیٔ قسمت، وہ نہ آسکے تو، مجبوراً مجھے افتتاحی کلمات ادا کرنے کے لیےکہا گیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے میں نے ابتدائیہ پیش کیا، تو سب نے بہت پسند کیا، خصوصاً پروفیسر صاحب نے بہت سراہا اور میری بے حد حوصلہ افزائی فرمائی۔ وہ میری زندگی کا یادگار دن تھا۔پروگرام کے اختتام پرمَیں نےانہیں اپنی بائیک پر اُن کے گھر چھوڑا۔ میرے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ عنایت صاحب کسی کی بے جا تعریف نہیں کرتے تھے،لیکن جو تعریف کے قابل ہوتا، اس کی فراخ دلی کے ساتھ برملا تعریف کرتے۔ اسی طرح اگرکسی کی اصلاح کرنی ہوتی، تومُشفقانہ انداز اختیار فرماتے۔
جماعت اسلامی کی شب بیداریوں میں درس ِ قُرآن دیا کرتے تھے، اکثر لوگ گھروں پر بھی درس ِ قُرآن کے لیے انہیں مدعو کرتے۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک دن پتا چلا کہ کہ وہ کراچی مُنتقل ہورہے ہیں۔ یہ سُن کر میرے تو جیسے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ بھی کسی طور حیدرآبادشہرچھوڑنا نہیں چاہتے تھے، لیکن بحالتِ مجبوری یہ ناگزیر تھا۔ کراچی جانے سے قبل اُنہوں نے مُجھے اپنا شعری سرمایہ ’’کُلّیاتِ عنایت علی خان ‘‘ عطا کیا۔
کراچی منتقل ہونے کے بعد میرا اُن سے تاحیات بذریعہ خط و کتابت تعلق برقرار جاری رہا۔ خط کے جواب میں اُن کے لکھے الفاظ میرے لیے علمی سرمائےکی حیثیت رکھتے ہیں۔ خط و کتابت کے ذریعے اُن سے شاعری، حالات ِ حاضرہ اور اسلامی موضوعات پر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔اکثر فون پر بھی بات چیت ہوجاتی تھی، جس طرح خط کو نصف مُلاقات کہا جاتا ہے، وہ فون پر بات کرنے کو ’’پون مُلاقات‘‘ کہتے تھے۔
اسے میں اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں کہ کراچی مُنتقل ہونے کے بعدکسی کام سے یا کسی پروگرام کے سلسلے میں جب حیدرآباد آنا ہوتا،تو ازخود فون کرکے مُجھے مُطلع کرتے۔ حالاں کہ ان کے رفیقِ کار اور بے شمار چاہنے والوں کی کمی نہیں تھی۔ یہ وہ اعزاز ہے، جو مُجھ بے نوا کو بلا شرکت ِ غیرے حاصل رہا۔ اُن سے آخری مُلاقات دسمبر 2019ء میں مُسلم کامرس کالج، حیدرآباد کی صد سالہ تقریب میں ہوئی۔اس تقریب میں اُن کے بہت سے ایسے شاگردوں نے بھی شرکت کی، جوبڑی بڑی پوسٹوں پر فائز تھے۔ وہاں سب ہی اُن سے عزّت و تکریم اور عقیدت کا اظہار کررہے تھے۔ وہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اُس وقت وہ واقعی کسی بادشاہ کی طرح لگ رہے تھے۔ایسا بادشاہ، جو رعایا میں علم و ہنر، اخلاق و ادب کی دولت نچھاورکرتا ہو۔
بعدازاں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی غیرمعمولی عزت و پذیرائی پر متاثر ہوکرمیں نے اس سارے منظر نامے پر داد و تحسین سے بھرپور ایک خط لکھ کر انہیں بھیج دیا۔ عموما ً خط کا جواب وہ اُسی کے پیچھے لکھ دیا کرتے تھے، لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے خط کی پشت پر لکھنے کے بجائےالگ سے کاغذ پرجواب لکھ کر بھیجا،یعنی میرا وہ خط خاص طورانہوں نے اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا۔کورونا وبا کے باعث لاک ڈائون کے دوران خط و کتابت کا سلسلہ مُنقطع ہوگیا۔ حالات کچھ بہتر ہوئے تو ایک تفصیلی خط لکھ کر رکھ لیا کہ صبح روانہ کردوں گا، لیکن آہ! 26 جولائی 2020ء کو اطلاع ملی کہ کراچی میں دل کے عارضے کے باعث وفات پاگئے۔
آج بھی وہ خط میرے پاس ویسے ہی رکھا ہے۔ انتقال سے تقریباً ایک ہفتے قبل میں نے فون کیا، تو معلوم ہوا کہ سو رہے ہیں، لیکن تھوڑی دیر بعد ہی اُنہوں نے خود فون کرلیا، اُن کی آواز سُن کر قلبی راحت محسوس ہوئی، لیکن یہ ہماری آخری ’’پون مُلاقات‘‘ تھی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ُان کے ذکر پر آنکھیں نم ہوجاتیں،ہمیشہ سب کو تاکید کرتے کہ حضرت محمد مُصطفیٰ ﷺ کے اسم ِ مُبارک کے ساتھ درود یعنی ’’ﷺ ‘‘لازمی لکھیں۔
علّامہ اقبال ؒ کی فارسی رُباعی؎تو غنی از ہر دو عالَم من فقیر.....روز ِ محشر عُذر ہائے من پذیر.....گر تو می بینی حسابم ناگزیر.....اَز نگاہ ِ مُصطفیٰ ﷺ پنہاں بگیر۔ (ترجمہ:’’ اے اللہ بے شک تُو تمام جہانوں سے غنی ہے اور بے شک میں فقیر ہوں- بس تو قیامت والے دن میری ایک درخوست قبول کر لینا- اگر وہاں میرا حساب لینا لازمی ہی ہو جائے، تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے رسوا نہ کرنا اور اُن کی نظروں سے چُھپا کر میرا حساب لے لینا-‘‘) اُنہیں بہت پسند تھی۔ جب بھی اس رُباعی کو پڑھتے، اُن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور ضبط کا بندھن ٹوٹ جاتا۔