• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رپورٹ: احتشام طورو

عکّاسی: فرمان اللہ جان

اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کو دنیا بھر میں ایک گھنائونا جرم سمجھا جاتا ہے اور اِسی لیے اس کی سزا بھی انتہائی سخت ہے۔ملاوٹ کے سدّ ِباب اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے پیشِ نظر بہت سے ممالک میں کُھلی اشیاء کی فروخت تقریباً ختم ہو چُکی ہے اور شہریوں کو کھانے پینے کی اشیاء بند ڈبّوں میں فراہم کی جا رہی ہیں، جن پر پراڈکٹ کے حوالے سے تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں۔پیکٹ کے اندر دودھ کی مقدار کتنی ہے؟ اس میں دیگر کون سی اشیاء شامل ہیں؟ کب پیک کیا گیا؟ اور کب ناقابلِ استعمال ہوگا؟سب کچھ درج ہوتا ہے، جب کہ قیمت بھی نمایاں طور پر لکھی جاتی ہے تاکہ مَن مانے نرخ وصول نہ کیے جا سکیں۔ تاہم، پاکستان میں ابھی تک کُھلی اشیاء ہی کی خرید وفروخت کا رجحان ہے۔ 

حکومت اشیائے خوردنی کی پیکٹس میں فروخت کی جانب بڑھ رہی ہے تاکہ ملاوٹ کا سدّ باب کیا جاسکے۔ اِس ضمن میں صوبوں نے ملاوٹ شدہ اور غیرمعیاری اشیاء کی فروخت روکنے کے لیے مخصوص اتھارٹیز قائم کی ہیں۔ اِسی تناظر میں تحریکِ انصاف کی حکومت نے خیبر پختون خوا میں حرام اشیاء کی درآمد اور فروخت روکنے، معیاری خوراک کی فراہمی، ہوٹلز وغیرہ کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے’’ فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ چھے سال قبل قائم ہونے والے اِس ادارے یا اتھارٹی کے مقاصد میں اشیائے صَرف کے معیار پر نظر رکھنا، غیر معیاری، کم وزن اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے متصادم اشیائے خورونوش فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور عوام کو صاف ستھری، غذائیت سے بھرپور اشیاء کی فراہمی یقینی بنانا بھی شامل ہے۔ 

خیبر پختون خوا میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی اتھارٹی ہے، جس کے پاس تربیت یافتہ عملہ موجود ہے اور عملے کی تربیت کا عمل مسلسل جاری بھی رہتا ہے۔نیز،’’ فوڈ سیفٹی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جا رہا ہے، جہاں فوڈ بزنس سے منسلک افراد کو تربیت دی جائے گی، جب کہ عوام میں معیاری خوراک سے متعلق شعور اجاگر کرنے اور خوراک سے متعلق عوامی شکایات سُننے کے لیے بھی طریقۂ کار وضع کیا جا رہا ہے۔واضح رہے، صوبائی حکومت نے کھانے پینے کی غیر معیاری اشیاء کی فروخت کے حوالے سے زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنائی اور اشیائے خورونوش کا معیار بہتر بنانے کے لیے اتھارٹی کو فری ہینڈ دیا، تو دوسری طرف، فوڈ اتھارٹی کے افسران اور اہل کاروں نے بھی جاں فشانی اور لگن سے فرائض کی ادائی کو اپنا شعار بنایا۔

اُنھوں نے ہر طرح کے دباؤ، لالچ اور اثر و رسوخ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے غیر معیاری اشیاء فروخت کرنے والی ہتھ ریڑھیوں سے لے کر نامی گرامی ہوٹلز تک کے خلاف قانونی کارروائیاں کیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔طعام گاہوں میں صفائی ستھرائی اور اشیاء کا معیار جانچنے کے لیے باقاعدہ ایک نظام متعارف کروایا گیا ہے، یوں کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والوں پر مستقل بنیادوں پر نظر رکھی جارہی ہے۔البتہ، اس سب کچھ کے باوجود اب بھی شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو، جسے شہری پورے وثوق سے معیاری اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا جاسکے۔ پرچون کی دکانوں سے لے کر ہول سیل مراکز تک میں فروخت ہونے والی اشیائے خورو نوش ہوں یا ہتھ ریڑھیوں، اسٹالز، کھوکھوں، موبائل یونٹس اور ریسٹورنٹس پر دست یاب پکوان، معیار کے معاملے میں صارفین میں اطمینان کم ہی پایا جاتا ہے۔ 

اس صُورتِ حال میں فوڈ اتھارٹی کو دودھ اور گوشت سمیت تمام اشیائے خور ونوش کی فروخت کے مراکز پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان مراکز کو رجسٹریشن اور لائسنسنگ کے دائرے میں لانا ہوگا، جب کہ اُنھیں حفظانِ صحت کے اصولوں کی پاس داری پر مجبور کرنے کے لیے کُل وقتی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح چھوٹے بڑے ریسٹورنٹس، ہوٹلز، کیفیز، بیکریز اور اشیائے خور ونوش تیار کرنے والے کارخانوں پر مستقل نظر رکھنا بھی لازمی ہے۔دراصل، ہمارے ہاں غیر معیاری اشیاء کی فروخت کا سلسلہ اس قدر مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑھ چُکا ہے کہ اصلاحِ احوال فوڈ سیفٹی اتھارٹی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس کے لیے اتھارٹی کے سربراہ اور دیگر اہل کاروں کو اپنی توانائیاں روایتی طریقۂ کار سے ہٹ کر کام میں لانی ہوں گی۔ عوام فوڈ اتھارٹی کو زیادہ اور بھرپور طریقے سے ایکشن میں دیکھنے کے متمنّی ہیں تاکہ مارکیٹ سے جعلی اور غیر معیاری اشیاء کا قلع قمع ہو سکے۔

ڈائریکٹر جنرل،’’ خیبر پختون خوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فود اتھارٹی‘‘، سہیل خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ’’ خیبر پختون خوا میں کیمیکل ملے دودھ کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا گیاہے، جب کہ صوبے میں جیو ٹیگنگ کے تحت سرکاری اہل کاروں کی کارکردگی مانیٹر کی جا رہی ہے۔فوڈ سیفٹی اتھارٹی نے پشاور میں14550ہوٹلز، جنرل اسٹورز، بیکریز، دودھ فروشوں اور قصابوں کی دُکانوں کی جیو ٹیگنگ مکمل کر لی ہے۔ یوں یہ دُکانیں ایک کِلک پر آگئی ہیں۔اب چارسدّہ میں دکانوں کی جیو ٹیگنگ کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ 

اِس منصوبے کی ایک خاص بات جیو ٹیگنگ کا سافٹ ویئر ہے، جو اتھارٹی کے جنرل منیجر آئی ٹی، عامر شہزاد نے صرف94ہزار روپے کی لاگت سے محض 27 دنوں میں بنایا۔ فوڈ اتھارٹی کے پاس اس سے قبل4500دُکانیں رجسٹرتھیں۔ جیو ٹیگنگ کے بعد لائسنسنگ کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔پہلے اتھارٹی کو چھے لاکھ روپے سے زاید کی آمدنی ہوئی، جب کہ اب جیو ٹیگنگ کے بعد 23.3ملین روپے حاصل ہوں گے۔ جیو ٹیگنگ میں دُکان داروں کے نام، پتے، شناختی کارڈ نمبرز مع دکان کی تصاویر موجود ہیں۔ اِس نظام میں دکان کی انسپیکشن، لائسنس اور دُکان دار کے خلاف کارروائیوں کی تفصیل بھی موجود ہوتی ہے۔یوں اتھارٹی کے پاس تمام دکانوں کا ڈیٹا دست یاب ہے۔نیز، دُکانوں کی رجسٹریشن کرتے ہوئے مقامی اور افغان شہریوں کی دکانوں کی شناخت بھی کی گئی۔‘‘ اُنھوں نے فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی سے متعلق مزید بتایا کہ’’ اتھارٹی عوام کو معیاری اشیائے خورونوش کی فراہمی یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ 

یہ ادارہ ایک مربوط نظام کے تحت کام کر رہا ہے۔ انسانی صحت سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں، اِس لیے ہمارا عزم ہے کہ عوام کو معیاری اشیائے خورو نوش کی فراہمی کے لیے وسائل کی کمی آڑے نہیں دیں گے۔تاہم، اِس ضمن میں یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کے ساتھ فوڈ بزنس سے منسلک افراد اور اداروں میں بھی صحت مند بخ سے متعلق شعور اجاگر کیا جائے، کیوں کہ اِس کے بغیر اچھی اور آلودگی سے پاک غذا کی فراہمی مکن نہیں۔ بھر پور آگاہی مہم کے ذریعے عوام میں احساسِ ذمّے داری اور قانون کی عمل داری کو اجاگر کرنا ہوگا۔پھر یہ کہ مُلک کو سزا اور جزا کے مؤثر نظام کی بھی ضرورت ہے۔فوڈ اتھارٹی وزیرِ اعظم، عمران خان کے ویژن کے مطابق کام کر رہی ہے۔ ہمارا مقصد کسی کا کاروبار متاثر کرنا نہیں، بلکہ اسے صحت کے جدید رحجانات اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق بہتر بنانا ہے تاکہ عام آدمی کو ہر جگہ کھانے پینے کی معیاری اشیاء میّسر آ سکیں۔‘‘

سہیل خان نے مختلف سوالات کے جواب میں یہ بھی بتایا کہ’’ فوڈ اتھارٹی کا دائرۂ کار صوبے کے22 اضلاع تک بڑھا دیا گیا ہے۔ پشاور میں فوڈ ٹیسٹنگ کے حوالے سے اسٹیٹ آف دی آرٹ لیب بنا رہے ہیں، جب کہ موبائل وین لیب بنانے کے لیے معاملات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ بعدازاں ریجنل سطح پر فوڈ ٹیسٹنگ لیبز قائم کی جائیں گی۔دُکان داروں پر جرمانوں کی شرح میں ردّو بدل اور اس کے خلاف اپیل کے حوالے سے قانون سازی کی جارہی ہے۔ پنجاب کی طرح خیبر پختون خوا میں بھی متاثرہ افراد کی اپیل سُننے کے لیے ایپلٹ کورٹ بنانے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ جب کہ عوام کی شکایات کے ازالے کے لیے بہت جلد ٹول فری نمبر کام شروع کردے گا۔نیز، صوبے بھر میں جیو ٹیگنگ کا پائلٹ پراجیکٹ شروع کر رہے ہیں، جس سے فوڈ بزنس اور کاروباری مراکز کے بارے میں مکمل تفصیلات حاصل ہو سکیں گی۔ 

جب کہ ہمیں یہ بھی پتا چلے گا کہ کن علاقوں میں کارروائیاں کی گئیں۔پھر یہ کہ ہم خوراک کے شعبے سے وابستہ افراد کو تربیت بھی دے رہے ہیں۔‘‘ دودھ، گوشت کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ’’ ہم دودھ میں ملاوٹ اور باسی گوشت کی فروخت پر بھی خصوصی نظر رکھے ہوئے ہیں۔دودھ میں ملاوٹ کے خلاف کارروائیوں کے نمایاں نتائج سامنے آرہے ہیں۔تاہم، کارروائیاں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ہی کی جاتی ہیں۔ معمولی نوعیت کے معاملات میں تین مرتبہ نوٹسز دینے کے بعد کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے، جب کہ سنجیدہ معاملات میں شکایت ملتے ہی کارروائی کرتے ہیں۔اس حوالے سے دُکان داروں کی شکایات کا ازالہ کر دیا گیا ہے، اب محکمے الگ الگ چھاپے مارنے کی بجائے مل کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ 

ڈی سی کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس کام کر رہی ہے، جس کی ہدایات کی روشنی ہی میں کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے۔ کسی کو بلاجواز تنگ نہیں کیا جاتا۔گزشتہ دو سال کے دَوران صوبے میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں، تاہم اب بھی کافی کام باقی ہے۔ مضرِ صحت اشیاء کے حوالے سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا۔ کیمیکل ملے دودھ کی فروخت پر سخت کریک ڈائون کیا گیا، جس کی بدولت اس مسئلے پر قابو پا لیا گیا۔ پشاور میں غیر معیاری مسالا جات اور دیگر اشیاء میں ملاوٹ کی باتیں سو فی صد درست نہیں۔ ہم تمام اشیاء کی پیکنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں، جس سے صُورتِ حال مزید بہتر ہوگی۔‘‘

سہیل خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا’’ افسران دیانت و صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اپنے فرائض کی بجا آوری کو عبادت سمجھیں اور محنت سے جی نہ چُرائیں۔ فوڈ اتھارٹی نے ملاوٹ مافیا کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ عوام کو ملاوٹ سے پاک خوراک کی فراہمی کے حوالے سے وزیرِ اعظم خود باقاعدگی سے تمام امور کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں اور وہ کے پی فوڈ اتھارٹی کی مثالیں دیتے ہیں۔

ہم نے ماڈل شاپس کے قیام کے لیے دُکان داروں اور تاجروں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کے لیے حکومت سے رابطہ کیا ہے۔‘‘ڈی جی فوڈ اتھارٹی کا کارروائیوں کے طریقۂ کار کے حوالے سے کہنا تھا کہ’’ ملاوٹ مافیا سے نمٹنے کے لیے کے پی کے فوڈ اتھارٹی اشیائے خور ونوش کا تفصیلی جائزہ لیتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے تمام ضلعی دفاتر میں ویجیلینس سیلز قائم ہیں۔ عوام نے کمپلینٹ سیل کے ذریعے بھی کافی اہم معلومات فراہم کیں، جس کے باعث پچاس فی صد آپریشنز کام یاب رہے۔‘‘

’’ خیبر پختون خوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی‘‘ ایک نظر میں

جنوری2020 ء سے اکتوبر 2020ء تک خیبر پختون خوا فوڈ سیفٹی اتھارٹی کی جانب سے فوڈ بزنس سے وابستہ27 ہزار 400 کاروباروں کا معاینہ کیا گیا، جس کے دَوران 6 لاکھ، 21 ہزار، 97 کلوگرام مضرِ صحت اشیاء تلف کی گئیں۔ 6 ہزار 579 افراد اور اداروں کو معیار کی بہتری کے لیے نوٹسز جاری کیے گئے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی پر ایک ہزار 65 خوراک مراکز سیل کیے گئے۔قوانین کی خلاف ورزی اور مضرِ صحت اشیاء کی فروخت پر 1 کروڑ 68 لاکھ 36 ہزار روپے کے جرمانے عاید کیے گئے۔

نیز، معیاری خوراک کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے تعلیمی اداروں اور دوسرے عوامی مقامات پر 382آگاہی سیشنز کا انعقاد کیا گیا۔ غذائی نوعیت کے54 کاروباروں کے ملازمین کو تربیت دی گئی۔ مختلف تاجر تنظیموں کے ساتھ افہام وتفہیم کا سلسلہ بھی جاری رہا اور مختلف مواقع پر تاجر تنظیموں کے ساتھ 226 سیشنز منعقد کیے گئے۔ 3ہزار 104کاروباری لائسینسز جاری کیے گئے اور اتھارٹی کو اس مَد میں ایک کروڑ 16 لاکھ روپے حاصل ہوئے۔

تازہ ترین