• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی ایشیا میں علمی و ادبی صحافت نے پہلے پہل اخبارات ورسائل کی صُورت آغاز کیا، پھرمغرب کے زیر ِ اثر علمی و تحقیقی سرگرمیوں کے تحت مجلات جاری ہونے لگے اور جامعات و تحقیقی اداروںنے ان کے توسّط سے علمی و ادبی صحافت کی ایک باقاعدہ روایت ڈال دی، جو گزشتہ سوڈیڑھ سوسال سے بڑی کام یابی کے ساتھ نہ صرف جاری ہے،بلکہ ایک مستقل مستحسن اقدام کی شکل اختیار کرچُکی ہے۔ پاکستان میں یہ روایت، سابقہ روایات کے تسلسل میں ، کم از کم پنجاب کی جامعات میں ایک حیثیت اور وقار کی حامل تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد اس نے ایک مستقل صُورت اختیار کی اور متعدّد نئی ،پرانی جامعات نے اسےعلمی ترقّی کے حالیہ ادوار میں بھی اپنایا۔

مختلف کلیات و شعبہ جات نے اپنی اپنی ترجیحات کے اعتبار سے مختلف مجلات کا اجرا کیا، جو اپنے وسائل واستعداد ِکارکی حد تک ہنوزجاری ہیں۔گرچہ یہ امرایک حد تک قابلِ ستائش توہے، لیکن آج کی ترقی یافتہ دنیا ،بے پناہ ترقیِ علوم کے دَور اور متعیّنہ عالمی معیار کی نسبت اسےقابلِ اطمینان کہنا ہر گز درست نہ ہوگا۔یاد رہے،جب اس صدی کے آغاز میں مُلک میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان‘‘ کے تحت کچھ بہتری لانے کی منظّم کوشش اور منصوبہ بندی کی گئی ،توبالخصوص جامعات میں تعلیمی معیارکی بلندی اور تحقیق کو عالمی سطح پر پہنچانے کاخاص اہتمام کیا گیا، جوایک حد تک مؤثر بھی ثابت ہوا۔اس ضمن میں جامعات ، ان کے کلیات اور ان سے منسلک اساتذہ و طلبہ کے لیے مطالعات و تحقیقات کے متعینہ عالمی اصول و ضوابط اختیار کرنے کوضروری قراردیا گیااور انہیں ہی تقرر و ترقی کا معیارمقرر کیا گیا۔

لہٰذا مجلات کے لیےاور ان میں شایع ہونے والے مقالات کے لیے بھی ، معیار کے عالمی سطح کے مسلمہ اصولوں کی پیروی لازم قرار دی گئی، جو ایک مستحسن اقدام تھا۔اس حوالےسے یہ بھی لازم ٹھہرا کہ جو مقالات یا مطالعات مجلّوں میں شامل کیے جائیںگے، اشاعت سے پہلے اُن کے معیار کی توثیق و تعیّن کے لیے متعلقہ ماہرین سے، جو خودثقّہ اہلیت و توقیر کے حامل ہوں، مثبت ماہرانہ رائے (Peer Review)ضرور حاصل کی جائے۔

لیکن اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہمارے مُلک کی جامعات اور ان کے مجلات کے ذمّے داروں کا اس ضمن میں کیا رویّہ رہا؟ یہ امرجائزہ طلب ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظورشدہ مجلّوں کے مدیران نے اس شرط پر کتنی سنجیدگی سے عمل در آمد کیا؟شاید کمیشن یا ادارے میں اس طرح کے کسی اہتمام کی کوئی روایت سرے سےموجودہی نہیں کہ وہ اپنی عائد کردہ شرائط کی تعمیل کا باقاعدہ جائزہ لیتے رہیں۔ 

یہ ادارہ اس ضمن میں آج تک جامعاتی تحقیق کے معیار اورماہرانہ آراکی صورتِ حال کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے اور انھیںعام کرنے سے متعلق خاموش ہی ہے۔پھر یہ جاننے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی جاتی کہ ماہرین منصفانہ آرا دیتے ہیں یا نہیں؟کیا اس عمل میں کسی تبدیلی ،بہتری کی ضرورت ہے؟ اور اگر ضرورت ہے، تو وہ کس طرح پوری کی جاسکتی ہے۔بظاہر تو اس حوالے سےادارے کی جانب سے کوئی علانیہ کوشش نہیں کی گئی، پھر اس حوالے سے بھی کوئی کام سامنے نہیں آتا کہ جس میں رسمیاتِ مقالہ نگاری کے لحاظ سے مجلّوں میں شائع ہونے والے مقالات کا معیار دیکھا ، جانچا، پرکھا جائےکہ اکثر مجلے جدید تر عالمی رسمیات اختیار کرنے کے معاملےمیں یک سانیت وہم آہنگی سے بے نیاز نظر آتے ہیں، جس کی وجہ سے شمارہ یا مجلّہ بے ترتیبی، عدم یک سانیت اور بد سلیقگی سے پُر ہوتا ہے۔

اس کا ایک بڑا سبب شاید یہ بھی ہے کہ اکثر مجلّوںکےمدیررسمیات کی اہمیت اور یک سانیت کے جدید تر ، سائنٹیفک اصولوں سے واقف ہی نہیں یا انہیں اختیار کرنے کی اہمیت کے قائل نہیں۔جب رویّہ ایسا ہوتو ماہرانہ رائے کے حصول اور اس کے لیےماہرین کی جستجو اور انتخاب کا کھکھیڑکوئی کیوں پالے؟ کوئی بھی جدید تر عالمی معیار کے متعیّنہ رسمیات کے تعیّن، اختیارکی اہمیت و ضرورت اور ماہرانہ آراکے حصول کے بنیادی تقاضے کیوں کر پورے کرے۔یہ ایسی وجوہ ہیں، جن کے سبب جامعات میں تحقیق کے معیار اوررفتار میں قابلِ ذکر ترقّی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے خود متعیّن کردہ اصولوں پر بھی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے سبب تحقیق کے میدان میں متعدّدخامیاں سامنے آرہی ہیں، جوایک بڑا علمی و قومی المیہ ہے۔

تحقیق اورتحقیقی مجلّوں کے معیارکی بہتری و بلندی میںمجلے کا اپنا معیار اور اس کے مدیروں اور مجلسِ مشاورت وغیرہ کا بڑا عمل دخل ہوتاہے، جب کہ ایک عمومی رائے کے مطابق آج ہرشعبے میںقحط الرجال ہے، جس میں روز افزوں اضافہ ہی ہورہا ہے، تو ایسے میں ہر شعبۂ علم میں سنجیدہ و لائق ماہرین کا میسّر آنا تقریباً ناممکن ہی ہوتاجارہا ہے۔

پھر ان ماہرین کا مخلص و انصاف پسند ہونا بھی ایک امرِلازم ہے کہ وہ مقالات پر دیانت دارانہ اور ماہرانہ رائے دیں۔ انھیں پسند کریں یا ان میں کم زوریوں کی نشان دہی کرکے مقالہ نگار کو ان کی اصلاح و ترمیم پر راغب کریں۔ اس ضمن میں ہماری اخلاقی کم زوریاں بھی مسئلہ بنتی جارہی ہیں ،چناں چہ غیر معیاری مقالات بھی، باہمی دوستانہ تعلقات، مروّت و رعایت کے حصول کے نتیجے میں’’ مثبت ماہرانہ رائے‘‘حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیںاور کوئی سطحی و سرسری نوعیت و اسلوب اور فرسودہ موضوع کامقالہ بھی رَد نہیں ہوتا ،بلکہ مجلے میں شامل ہوجاتا ہے ۔

بعد ازاں، ایسے ہی مقالات کی بنیاد پر مدیران اور ذمّے دارمجلس کے متعلقہ اراکین سے روابط اورباہمی دوستی کے باعث مجلّہ نہ صرف منظوری حاصل کرلیتاہے، بلکہ معیار کے زیڈ( Z) درجے سے وائی( Y) اور ایکس ( X) درجے میں بھی ترقّی پالیتا ہے۔اور یہ لگ بھگ آج کل کے تمام ہی جامعاتی مجلات اور ان کے مطلوبہ معیارکی عمومی صورت ِ حال ہے، جس پر نہ کوئی ذمّے دار نظر ڈال رہاہے اور نہ کسی کو اس زوال، گراوٹ کا احساس ہے، اسی لیے کوئی قدغن بھی نہیں لگ رہی ۔

حد درجہ سطحی اور غیرمعیاری مجلے بھی نہ صرف ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور ہورہے ہیں بلکہ ابتدائی سطح (زیڈ)سے بلند اور بلندترسطح( ایکس اور وائی) میں جگہ بنانے میں بھی کام یاب ہو رہے ہیں،جو انتہائی قبیح عمل ہے۔ متعدّد معاملات کی طرح یہ بات بھی قابلِ توجّہ ہے کہ مقالات کے معیار کے تعیّن میںماہرانہ رائے کے حصول اور خود اس رائے کے جانچنے اور تسلیم یا رَد کرنے کا کوئی نظام شاید ہائر ایجوکیشن کمیشن میں موجو دہی نہیں۔

اسی لیے ہر طرف ایک بے نیازی کی سی کیفیت ہے، جس کی وجہ سے مجلّوں کے معیار اور خاص طور پر اردو مجلوں میںکوئی قابلِ قدر بہتری نظر نہیں آرہی ۔چناں چہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات میں تحقیق کے فروغ اور معیار کی بہتری و بلندی کے لیے جواصلاحات پیش کی تھیں اور خواب دیکھے تھے، اُن میں تاحال کوئی قابلِ اطمینان پیش رفت سامنے نہیں آسکی ۔

در اصل ہمارےہاں مجلّوں کے معیار میں طرح طرح کے سقم موجود ہیں۔ ہمارا مشاہدہ و تجربہ ہے کہ ماہرانہ رائے کا اہتمام بظاہرخانہ پُری کی خاطر کیا تو جاتا ہے، لیکن مقالات کے موضوع کی مناسبت سے مخصوص ماہرانہ رائے کے حصول کی جستجو نہیں کی جاتی۔ ایک ماہر کا محض پی ایچ ڈی ہونا کافی سمجھاجاتا ہےاور اس طرزِعمل کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ مقالات بالعموم سطحی اور غیرمعیاری اور مجلے کے معیارکو مجروح کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ایسی ہی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ترقّی یافتہ ممالک میں پری پرنٹ سرور (Pre print Server) کے عنوان سے ایک تجربہ کیا گیا ہے۔ 

مذکور ہ نوع کے سرور ز پرموصول ہونے والے ہر مقالے کو ڈال دیا جاتا ہے اور جو مقالات اس عمل میں اپنا مثبت تاثر قائم کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں، انہیں معیاری سمجھا جاتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں اس طرح کا کوئی عمل ، اس کے لیے پیش رفت اور ضروری وسائل کی فراہمی ہماری مجموعی غیر سنجیدگی، بے نیازی اور عدم دل چسپی کی صورتِ حال میں کس حد تک ممکن ہے، اس کا فیصلہ ہم خود کرسکتے ہیں۔ شاید اگلی کئی دہائیوں تک ہم ایسے ذرائع اور وسائل کے حصول، شعورا ور ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے محروم ہی رہیں۔

ترقّی یافتہ ممالک میں ماہرانہ رائے کی اہمیت اورحصول کی خاطر جو اہتمام کیا جاتاہے اور اس کے طفیل وہاںجو طریقۂ کار،طرز عمل عام ہے ،اُس سے ہم بے خبر ہیں، لیکن اس کے چیدہ چیدہ نکات پر ضرور نظر ڈال سکتے ہیں۔

٭سرسری و سطحی اور فرسودہ و غیر اہم موضوعات پر مبنی مقالات سے رسائل کے صفحات کو آلودہ نہ ہونے دینا۔

٭غیر معیاری مقالات میں ترمیم اورتصحیح کروانا ،تاکہ صرف معیاری تحقیقات سامنے آسکیں۔

٭ معیاری تحقیقات کے فروغ میں مدیران ِ مجلّہ کے کام کو سہل بنانا۔

٭پبلونز (Publons) جیسے ادارے ماہرانہ رائے میں مصروف ماہرین کو فوقیت دیتے ہیں ،جو اُن کی شہرت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

٭ماہرانہ آرا کو عام کیاجاتا ہے، تاکہ باقی افراد بھی استفادہ کر سکیں۔

٭منصبی ترقّی میں بھی اس کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔

٭ایسے ادارے بھی موجود ہیں ،جوماہرانہ آرادینے والے افراد کے کاموں کو سراہتےہیں۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ اِن تجاویز پر غورکرتے ہوئےماہرانہ آراکے حصول کی خاطر ایک ایسا نظام وضع کرے،جو نہ صر ف غیر معیاری تحقیقات روکنے میں کام یاب ہو، بلکہ اس کے تحت نو واردانِ تحقیق کی تربیت بھی ممکن ہوسکے۔ مثال کے طور پرماہرانہ رائےجیسے اہم موضوع پر اجتماعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے معتبر و ممتاز لکھنے والوں سے عملی تجاویز حاصل کی جائیں۔

٭ماہرانہ رائے دینے والوںکے کوائف پر مشتمل ایک فہرست مرتّب کی جائے، جو اس کام کو ایک جامع منصوبے کے طور پر اختیار کرے۔

٭ماہرانہ رائے دینے والوں کی خدمات کو اعلیٰ سطح پر تسلیم کیا جائے۔

٭ماہرانہ آراکی مد میں مناسب اعزازیہ بھی دیاجانا چاہیے۔

٭نئے لکھنے والوں کی اصلاح و تربیت کی غرض سے سال کی چندمعیاری اور غیرمعیاری آراکی اشاعت کانظام بھی ہونا چاہیے، جو بطور مثال حوالہ بھی بنیں۔

٭ماہرانہ رائے کے موضوع اور اس کے حصول کو اس درجے معتبر بنایا جائے کہ پاکستان کے سرکاری، نیم سرکاری اور غیرسرکاری ادارے اپنی اسامیوں کے اعلان میں ان کی خدمات تسلیم کریں۔

یہ وہ تجاویز ہیں ، جن کے سبب تحقیقات و مقالات کا معیار بلند ہوسکتاہے اور ان کے طفیل مجلّوں کو ایک وقار اور معیار بھی میسّر آسکتاہے۔ورنہ ایک زمانہ تھا کہ مجلے کی ادارت فرد ِواحد کے ذمّے ہوا کرتی، جو اپنی جگہ کئی کئی علوم پر عبور اور کئی زبانوں پر دست رس رکھتاتھا، اس کا مطالعہ اس قدر وسیع ہوتا کہ کسی علم میں دنیا بھر میں کیا ہورہاہے ، کون ، کس موضوع پر کیا کررہاہے، اور مطالعات وتحقیقات میں کیا کیا دریافتیں، انکشافات ہورہے ہیں،اُسے سب علم ہوتا۔یہی وجہ تھی کہ وہ خود ہی مقالے پر رائےدے کر اس کی اشاعت کا فیصلہ کرلیتا۔بلا شبہ ماضی کے مقابلے میں علوم نے بے پناہ ترقّی و وسعت اختیار کرلی ہے۔ 

اس لیے آج ایک معیاری تحقیق کے لیے متعلقہ شعبے کے مخصوص ماہرین کی ضرورت لازم ہوتی ہے۔ آج کے تحقیقی مقالات پرکھنے اور ان کے معیار متعیّن کرنے کے لیے بے شک سید سلیمان ندوی اور مولوی محمد شفیع وغیرہ جیسے زیرک نہ سہی،مگر چند دانش وَر تو یقیناً ہوں گے،جو آج کی زوال پذیر اخلاقیات کے دَور میںبھی دیانت دار ہوںگے،تو ایسے ہی افراد کی خدمات حاصل کرکےمقالے یا مجلے کا معیار وقیع اور عالمانہ بنایاجا سکتاہے۔بس،اس حوالے سےبہترین منصوبہ بندی اورٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین