ایک طرف مہنگائی اور بیروزگاری کا جن بے قابو ہے تو دوسری جانب کورونا کی دوسری لہر کی شدت نے بزدار حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے، کاسمیٹکس کارکردگی کی وجہ سے کورونا سے نمٹنے کے لیے سمارٹ لاک ڈائون کے سوا پنجاب حکومت کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے، کورونا پروٹوکولز کی خلاف کارروائیوں، عارضی ہسپتال بنانے۔
وینٹی لیٹرز کی کمی پوری کرنے کے دعوے تو سال بھر بار بار کیے جاتے رہے مگر بزدار حکومت حالیہ لہر روکنے میں مسلسل ناکام اور پی ٹی آئی کی حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے، حیران کن بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک بات بار بار دہرائی جارہی ہے کہ عثمان بزدار جیسا وزیراعلیٰ نہ پہلے تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔
ان کے خیال میں وزیر اعلی کمال کے ایماندار اور محنتی شخص ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی کمال فراخدلی اور بزدار حکومت سے حیران کن اطمینان سے پی ٹی آئی کے اندرونی حلقے بہت پریشان ہیں۔ ایک بات سچ ہے کہ بزدار حکومت کا کوئی اور مخالف نہیں ہے،ان کے مخالف خود ان کی اپنی حکومت اور پی ٹی آئی میں ہی موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے ان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ وزیراعلیٰ حقیقت میں ایک صاف گو اور ایماندار انسان ہیں مگر موجودہ حالات میں ان کے خلاف پراپیگنڈا پھر سے زور پکڑ رہا ہے کہ ان کے قریبی عزیز بہت سے خفیہ معاملات چلا رہے ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر اور اے ایس پیز سطح کے تبادلوں کو بھی متنازع قرار دے جارہا ہے، تمام تر تنقیدی توپوں کا رخ موڑنے کے لیے وزیراعلی اور ان کی ٹیم کی پرفارمنس بہت بڑا ہتھیار ثابت ہوتی مگر بے پناہ مسائل سامنے آنے کی وجہ سے اب ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا،مظلوم طبقے اور عام انسانوں کو بروقت انصاف اور زندگی میں آسانیاں فراہم کرنا پی ٹی آئی کا سب سے بڑا نعرہ تھا، بزدار حکومت کو ڈھائی سال گزر گئے۔
عوام کو ریلیف نہ ملا، الٹا مہنگائی نے پیس کر رکھ دیا، ٹھوس عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں ایک مایوسی کی لہر پائی جاتی ہےجس کا پی ٹی آئی کو آئندہ الیکشن میں ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، بات ہو جائے بزدار حکومت کے پہلے منصوبے فردوس مارکیٹ انڈر پاس کے حوالے سے جو گزشتہ ڈھائی سال میں پی ٹی آئی کی حکومت کا پنجاب میں پہلا بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے۔
وائس چیئرمین ایل ڈی اے ایس ایم عمران اور ڈی جی ایل ڈی اے احمد عزیز تارڑ کی دن رات محنت کے بعد اس کا افتتاح ممکن ہوا مگر اس سے قبل کم و بیش 7تاریخیں منسوخ ہوئیں،ابھی اس کا کچھ کام ہونا باقی ہے۔ بہرحال بزدار حکومت نے کر دکھایا ہے کہ وہ بھی بڑے پراجیکٹس بنا سکتی ہے۔ واپس آ جاتے ہیں کہ کورونا کے دوسرے سپیل میں عوام کے لیے حکومت نے کیا انتظامات کئے ہیں تو یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ ایک سال کی مسلسل محنت کے باوجود آٓج بھی محکمہ ہیلتھ یہ صلاحیت حاصل نہیں کرسکا کہ ہسپتال میں آنے والے نزلہ، زکام سانس کی بیماریوں میں مبتلا مریض کورونا ٹیسٹ مفت کرواکے اپنا شک دور کر سکیں، وزیراعلیٰ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ہسپتالوں میں ہو کیا رہا ہے۔
صرف وزیراعلیٰ کی توجہ کیلئے اتنا کہنا ہے کہ آج لاہور کے بڑے ہسپتال بغیر ریفرنس اور سفارش کے آئے عام مریض کا علاج شروع کرنے کی بجائے اسے میو ہسپتال ریفر کر رہے ہیں اور میو ہسپتال کی یہ صورتحال ہے کہ وہاں بستروں کی کمی ہے،مریضوں کو چند ادویات دیکر ہسپتالوں سے گھر بجھوا دینے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں،حکومت اخبارات، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ کورونا کا دوسرا سپیل پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہے لیکن عوام کو علاج کے مواقع فراہم کرنے میں تاحال ناکام ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ سانس کی بیماریوں والے مریض اب زیادہ دیر تک وائرس کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔اسکول،کالجز اور یونیورسٹیز کو ایک بار پھر سے مکمل بند کر دیا گیا ہے، دوسری طرف اپوزیشن جلسے جلوس کرنے میں مصروف ہے۔ اپوزیشن رہنما اس وقت عوام کی زندگیوں کا بالکل نہیں سوچ رہے، پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں آکر کورونا سیاسی ہوگیا، معصوم عوام کورونا کے شدید حملے کے باوجود جلسوں جلوسوں میں شرکت کر رہے ہیں، اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ عوام کو سوچنا چاہئے اس وقت حکومت مخالف تحاریک درست نہیں ہیں،پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ کامیاب تھا جس میں بینظیر بھٹو شہید کی صاحبزادی آصفہ بھٹو کی سیاست کے میدان میں پہلی انٹری ہوئی۔
تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آصفہ بھٹو کا پہلا خطاب توقعات سے بہتر تھا،بہرحال اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ بزدار حکومت بیروزگاری اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کو روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ وزیراعلیٰ کو مثبت اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے، خواتین، طالبات اور معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتیوں کے وقعات میں کمی نہیں آ سکی، روزانہ پنجاب میں کہیں نہ کہیں زیادتی، گینگ ریپ اور اغوا کے کیسز رجسٹرڈ ہورہے ہیں اور ایک خفیہ ادارے کے ذرائع کے مطابق بہت سے کیسز کا اندراج بھی نہیں ہوپا رہا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بزدار حکومت کے ڈھائی سالہ دور میں لاء اینڈ آرڈر میں کس حد تک سدھار آسکا ہے۔ بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ لاہور میں ایک ایماندار بہادر نڈر پولیس آفیسر سی سی پی او عمر شیخ کی تعیناتی سے بہتری آئی ہے یعنی اب پولیس افسران اور اہلکاروں میں تھوڑا خوف ضرور پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں سی پی او لاہور شیخ عمر کو شکایت نہ ہوجائے حالانکہ ان کے خلاف ایک سیاسی جماعت اور کرپٹ پولیس اہلکاروں کا مافیا پہلے دن سے سرگرم عمل ہے۔
لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر کرنے کے ساتھ مہنگائی پر ہر صورت کنٹرول کرنا ناگزیر ہے اور کورونا سمیت مجموعی طور پر ہسپتالوں کی صورتحال بھی بہتر کرنا ہوگی۔ پی ڈی ایم کا آخری جلسہ لاہور میں ہے اس میں عوام کی شرکت کم سے کم رکھنے کے لیے بزدار حکومت نے سر جوڑ لیے ہیں لیکن ایک خبر ہے کہ پی ڈی ایم جلسے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں نے ملک بھر سے اپنے رہنمائوں اور کارکنوں کوابھی سے لاہور اکٹھا ہونے کے احکامات دے دیئے ہیں۔
معاشی مسائل سے تنگ عوام کو کورونا کے باوجود گھروں سے نکالنا مشکل نہیں ہوگا، دیکھنا ہے کہ پہلے ہی کئی مسائل میں الجھی بزدار حکومت اس چیلنج سے کس طرح نبرد آزما ہوتی ہے۔