ملتان کے جلسہ کو روکنے کے لئے حکومت نے جو حکمت عملی اختیار کی ،اس نے پی ڈی ایم کی تحریک میں نئی جان ڈال دی ہے ، آج اگر حکومت یہ سوچے کہ اس نے پی ڈی ایم کو قلعہ کہنہ قاسم باغ میں جلسہ کرنے کی اجازت نہ دے کر جلسے سے پہلے ہی تحریک کا جو ماحول بنادیا تھا ، اس کا اسے فائدہ ہوا ہے یا نقصان ،تو نتیجہ نقصان ہی کے حق میں قرار پائے گا ،ہماری کئی دہائیوں پر مشتمل سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اپوزیشن کی تحریکوں میں جان اس وقت پڑتی ہے ،جب حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور وہ ایسے فیصلے کرنے لگتی ہے ،جو تحریک کو ہوا دینے کا باعث بنتے ہیں۔
ملتان میں اگر پی ڈی اے کا جلسہ اس طرح کرنے کی اجازت دے دی جاتی، جیسے پہلے جلسے ہوتے رہےہیں ،تو شاید بات اتنی آگے نہ بڑھتی ،نہ جانے کس خیال سے حکومت نے ملتان کے جلسہ کو انا کا مسئلہ بنایا ،ظاہر ہے کہ پی ڈی ایم سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ حکومت کے دباؤ پر جلسہ کو منسوخ کردے۔
تاہم حکومت کے پاس یہ گنجائش موجودتھی کہ وہ ملتان کے جلسہ کو قلعہ کہنہ قاسم باغ میں منعقد ہونے دیتی اور معاملہ دو چار گھنٹوں کے بعد خود بخود نمٹ جاتااور بات آئی جائی ہوجاتی ،مگر جس طرح کی حکمت عملی اختیار کی گئی اور یہ کہا گیا کہ کورونا کے پھیلاؤ کی وجہ سے جلسہ کی اجازت نہیں دی جارہی ،اس اجازت کے نہ دینے سے پورے جنوبی پنجاب میں جگہ جگہ جلسوں کی جو صورتحال پید اہوئی ،اس سے یہ بات واضح ہے کہ حکومت کی حکمت عملی سیاسی شعور سے نابلد تھی ،ایک جگہ جلسہ ہوناتھا ،مگر رکاوٹوں کی وجہ سے جگہ جگہ ہزاروں افراد کے جمع ہونے سے کورونا کی وہ صورتحال جسے روکنے کا دعویٰ کیا گیا تھا ،مزید گھمبیر ہونے کے امکانات پیدا ہوئے۔
قلعہ کہنہ قاسم باغ کی بجائے پی ڈی ایم رہنماؤں نے گھنٹہ گھر چوک پر ہی ٹرک پر عارضی سٹیج بنا کر جلسہ کردیا ،پولیس نے جس طرح پانچ روز تک نہ صرف ملتان بلکہ جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں پکڑدھکڑ کی ،سیاسی کارکنوں کو رات گئے گھروں سے ہٹایا اور جگہ جگہ کنٹینرز لگا کر راستے بند کئے گئے ،اس نے تحریک کی ایک ایسی فضا پید اکردی ہے کہ جو اب لاہور کے جلسہ تک جاتے جاتے ،نہ جانے کیا شکل اختیارکرے گی۔
حکومتی رکاوٹوں کے باوجود ملتان کے کامیاب جلسہ کا سب سے بڑافائدہ گیلانی خاندان کو ہوا ،یوسف رضا گیلانی کے چاروں بیٹوں نے اس جلسہ کو کامیاب بنانے کے لئے فرنٹ فٹ پر آکر لوگوں کی قیادت کی ، انتظامیہ کے جبرکا مقابلہ کیا ،جس پر ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے ،ایک بیٹے علی قاسم گیلانی کو جو اس جلسہ کے کوآرڈی نیٹر بھی تھے ،قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
ایک طویل عرصہ بعد اس جلسہ کی بدولت گیلانی خاندان کو سیاست میں آگے آنے کا موقع ملا ہے ،ویسے بھی اس سے پہلے پیپلزپارٹی کی ایسی ساکھ اور عوامی مقبولیت موجود نہیں تھی کہ وہ لوگوں کو سٹرکوں پر لاسکے ،یا کوئی ڈھنگ کا جلسہ ہی کرسکے ،مگر اس جلسہ کی وجہ سے ایسا ماحول پید ا ہوا کہ نہ صرف گیلانی خاندان کو پیپلزپارٹی کی قیادت کرنے کا موقع ملا ہے بلکہ یوسف رضا گیلانی کے چاروں بیٹوں کو ایک بڑی سیاسی شناخت بھی مل گئی ہے،اس جلسہ نے جو آخر وقت تک بے یقینی کا شکار رہا ،حکومت کی بے تدبیری اور سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری ہونے کا پردہ چاک کردیا ہے،ملتان کے جلسہ کو کو کورونا کی وجہ سے روکنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت اس جلسہ سے صرف ایک دن پہلے لوئردیر میں جماعت اسلامی کے بڑے جلسے کو روکنے کے لئے کوئی قدم نہ اٹھا سکی اور نہ ہی اسد عمر ودیگر حکومتی تقاریب کو روکا گیا۔
جبکہ دعوے یہ تھے کہ پشاور جلسے کی وجہ سے صوبہ سرحد میں کورونا کی شرح بڑھی اور اس پر مقدمہ بھی درج کیا گیا ،اسی قسم کی دوعملی نے اپوزیشن کے اس موقف کو قوت بخشی کہ اپوزیشن کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لئے حکومت کورونا میں پناہ ڈھونڈ رہی ہے،جبکہ صورتحال یہ ہے کہ وہ کورونا کو روکنے کے معاملہ میں قطعاً سنجیدہ نہیں اورجن ایس او پیز کا اعلان کیا گیا ، بازاروں اور مختلف جگہوں پر عملدرآمد کرانے کے لئے حکومت کہیں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ،ملتان میں تقریباً پانچ دن تک جو کچھ ہوا ،وہ ایک بڑا سیاسی ڈرامہ تھا ، جس نے ملک میں سیاسی ہیجان اور کشیدگی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ،اپوزیشن شاید یہی چاہتی تھی اور حکومت نے اسے پلیٹ میں سجا کر اس کی خواہش کو پورا کردیا ہے،اب آگے کی منازل دیکھتے ہیں کہ اپوزیشن کس طرح طے کرتی ہے ،تاہم ملتان میں مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے اعلان کیا کہ جمعہ اور اتوار کو پورے ملک کے ضلعی صدر مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔
گویا حکومت کی بے تدبیری نے ملتان کی کشیدگی کواب پورے ملک تک پھیلانے کے لئے ایک اچھا جواز پیدا کردیا ہے ۔ ملتان کے جلسہ کے موقع پر ایک اور بات بڑی نوٹ کی گئی کہ پی ڈی ایم کا اتحاد ہونے کے باوجود دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے پتے کھیلتی رہیں ،مثلاً گرفتاریاں تو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں و رہنماؤں کی ہوئیں ،مگرپیپلزپارٹی کے رہنما اپنے اور مسلم لیگ ن کے قائدین اپنے کارکنوں کی علیحدہ علیحدہ تعداد گنواتے رہے اور یہ ثابت کرتے رہے کہ ملتان کا جلسہ روکنے کے لئے جو کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے ،وہ صرف ان کے لئے ہے ۔
حتی کہ بلاول بھٹوزرداری بھی کراچی میں بیٹھ کر جو ٹویٹ کرتے تھے ،اس میں بھی یہی کہتے تھے کہ ملتان میں پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس روکنے کے لئے حکومت منفی ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے،حالانکہ یہ جلسہ یوم تاسیس کا نہیں ،بلکہ پی ڈی ایم کا شیڈولڈ جلسہ تھا اور اس میں پی ڈی ایم کی قیادت بشمول مریم نواز ، مولانا فضل الرحمن اور دیگر نے بھی شرکت کرنا تھی ،یہ انفرادی سوچ بھی پی ڈی ایم کی اجتماعی تحریک کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے ،مسلم لیگ ن کے لئے ملتان کو ئی اجنبی شہر نہیں ہے۔
وہ یہاں سے باربار کلین سویپ کرچکی ہے،البتہ پیپلزپارٹی کے ملتان میں دوبارہ ان ہونا ایک ایسا خواب ہے کہ جو وہ بڑے عرصہ سے دیکھتی آئی ہے ،اس جلسہ کی وجہ سے جو ٹیمپو بنا ،اس نے پیپلزپارٹی کی اس خواہش کو پورا کرنے کی امید پیدا کی ہے،مگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے ،تو اب بھی ملتان میں سوائے گیلانی خاندان کے پیپلزپارٹی کی کوئی تنظیمی جڑیں نظر نہیں آتیں ،اور اس کی وجہ بھی شاید گیلانی خاندان خود ہے ،جن کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے نظریاتی کارکن پارٹی سے خائف ہیں اور وہ ماضی کی طرح متحرک کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے۔
ملتان جلسہ کے موقع پر بھی دیکھا گیا کہ سارے منظر نامے میں صرف یوسف رضا گیلانی کے بیٹے ہی کہیں نہ کہیں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئے ،تو کہا یہ جاسکتا ہے کہ ملتان میں پیپلزپارٹی گیلانی خاندان تک سکڑگئی ہے اور گیلانی خاندان کے پانچ کردار جن میں ایک سید یوسف رضا گیلانی خود اور چاران کے بیٹے شامل ہیں ،اس پارٹی میں ہرطرف نظر آتے ہیں ،یہ ایسی ہی صورتحال ہے ،جیسی شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی کے اندر پید ا کررکھی ہے ،وہاں بھی ان کی خواہش یہی ہےکہ وہ اوران کے صاحب زادے زین قریشی پی ٹی آئی کی سیاست پر ملتان میں اپنا سکہ جمائے رکھیں ۔