میری نظر میں وفاقی دارالحکومت کا کوئی رہائشی ایسا نہ ہوگا جس نے اپنے بچوں کو مرغزار چڑیا گھر میں کاوان ہاتھی سے ملاقات نہ کرائی ہو، مجھے یاد ہے کہ کراچی، لاہور، پشاور سمیت ملک کے دوسرے علاقوں سے آنے والےلوگ بھی مرغزار چڑیا گھر تفریح کو جاتے تھے ، اسلام آباد میں مقیم غیرملکیوں کی دلچسپی کا محوربھی مرغزار چڑیا گھر ہواکرتا تھا جہاںکبھی کاوان ہاتھی اور سہیلی ہتھنی کی بلند آواز چنگھاڑیں گونجا کرتی تھیں، دونوں ہاتھی مہمانوںکو اپنی سونڈ اٹھاکر خوش آمدید کہتے اور انہیں نئے کرتب دکھاکر محظوظ کراتے، بہت سے بچے ہاتھی کی سواری کرتے اورخوشگواردورے کی تصویریںبھی بناتے تھے۔ تاہم بچپن کی یہ سب خوشگوار یادیں اب قصہ ماضی بن چکی ہیں کیونکہ اسلام آباد میں گزشتہ 35برس سے موجود کاوان ہاتھی ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوکر کمبوڈیا پہنچ چکا ہے۔ ایشیائی نسل کا ہاتھی کاوان جب سری لنکا سے اسلام آباد پہنچا تھا توصرف چند برس کا تھا، جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے ایشیائی ہاتھی چڑیاگھر میں پیتالیس سے پچاس برس تک زندہ رہ سکتے ہیں جبکہ جنگلوں میں ان کی اوسط عمر 60 سال تک ہے، کاوان نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ دوران قید پاکستان میں گزارا، ننھے منے بچوں کی تفریح کا سامان بننے والے اس پیارے ہاتھی کے شب و روز یہاں کیسے گزرے اور اس سے کتنا نامناسب سلوک کیا گیا، اس پر بہت کچھ میڈیا پر آچکا ہے۔مجھے آج افسردگی کے عالم میں مہاتما گاندھی جی کا یہ فرمان بھی یاد آگیا ہے کہ کسی قوم کی عظمت اور اخلاقی اقدار کی بلندی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جانوروںسے کیسا سلوک کرتی ہے۔دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات میں بے زبان جانوروں سے اچھے برتاؤ کی خصوصی تلقین کی گئی ہے، اہنسا (عدم تشدد)کے پرچارک ہندو دھرم کے مطابق جانور بھی انسانوں کی طرح دکھ درد محسوس کرتا ہے، کسی انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ جانور کو نقصان پہنچائے بلکہ جانوروں کی خدمت کرنے والے ساری عمر سُکھی رہتے ہیں۔اسلام نے جانوروں کو بھی خدا کی مخلوق میں شمار کیا ہے جو قدرت کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں، اللہ کے آخری نبی ﷺ نے بے زبان جانوروں کے ساتھ نرمی، رحمدلی اور شفقت آمیز برتاؤ یقینی بنانے کی تلقین کی۔ بطورمحب وطن پاکستانی میرے لئے یہ امر نہایت افسوس کا باعث ہے کہ ہم وفاقی دارالحکومت میں رہتے ہوئے ایک ہاتھی کو بہترین ماحول فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہے، ہمارے لئےشرم کا مقام ہے کہ آج دنیا بھر کے عالمی اخبارات کاوان ہاتھی کے ساتھ پاکستان میں کئےگئے ناروا سلوک کو اپنی خبروں کی زینت بنا رہے ہیں، جبکہ کمبوڈیا میں کاوان ہاتھی کا استقبال پھلوں اور مذہبی منتروںسے کیاگیا، اطلاعات کے مطابق مرغزار چڑیا گھر میںیہ ظالمانہ سلوک صرف کاوان ہاتھی تک محدود نہیں تھا بلکہ آٹھ سال قبل سہیلی ہتھنی بھی علاج معالجے کی سہولتوںکی عدم دستیابی کی بناء پر تڑپ تڑپ کر مر گئی تھی اور کئی دن تک کسی کو توفیق نہیں ہوئی تھی کہ اس کی لاش اٹھاکر ٹھکانے لگادی جائے، گزشتہ برس آٹھ عدد نیل گائے زہر کھانے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی گئی تھیں جس کی تصدیق پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہوئی تھی اور ایف آئی اے سے مجرمانہ غفلت کے مرتکب عملے کی نشاندہی کیلئے مدد بھی مانگی گئی تھی، رواں برس مذکورہ چڑیاگھرمیں شیر اور شیرنی سمیت متعدد نایاب جانور ہلاک کردئیے گئے تھے جن کی باقاعدہ ایف آئی آر بھی تھانہ کوہسار میں درج ہے، اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیاپر وائرل ہوئی تھی جس میں چڑیاگھر کے تین مبینہ اہلکاروں کو شیر اور شیرنی کو تشدد کے بعد آگ میں دکھیلتے دیکھا جاسکتا تھا، اسی طرح گزشتہ برس نایاب نسل کے بھورے ریچھ کی پراسرار موت کا معمہ بھی حل نہیں ہوسکا، درد سے کراہتی مادہ ریچھنی کے پاؤں میں خون آلود زخم کی تصویریں بھی میڈیا پر آچکی ہیں، اس کے علاوہ بھی نجانے کتنے مزید معصوم جانوراس عقوبت خانے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ہمیں سمجھنا چاہئے کہ آج اکیسویں صدی میں چڑیاگھر کے حوالے سے دنیا بھر میں نظریات بدل چکے ہیں، وہ فرسودہ دور چلا گیا جب جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول سے جدا کرکے ڈنڈے کے زور پر انسانوں کی تفریح کیلئے پنجروں میں بند کردیا جاتا تھا، آج کے جدید دور میں جانوروں کی دیکھ بھال اورچڑیاگھرکی نگرانی باقاعدہ ایک آرٹ کا درجہ حاصل کرچکا ہے، دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں انیمل ویلفیئر اور زوُ منیجمنٹ جیسے مضامین میںاعلیٰ ڈگریاں آفر کررہی ہیں، ورلڈ ایسوسی ایشن آف زوز اینڈ ایکوریم جیسے ادارے چڑیا گھروں کیلئے بین الاقوامی معیار اور قوانین وضع کررہے ہیں، جنوبی افریقہ جیسے ممالک میںلوگ ماحول دوست سیاحت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جنگلی حیات کو دوستانہ انداز میں قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں موجود ہر چرند پرند کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور ملک کے تمام علاقوں میں واقع چڑیاگھروں کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرنے کیلئے قانون سازی کی جائے۔میں کاوان ہاتھی کو تکلیف دہ زندگی سے نجات دلانے کیلئے جدوجہد کرنے والے ان تمام لوگو ں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے بے زبان جانورکادرد محسوس کرتے ہوئے اسے آزاد کرانے کاارادہ کیا،خصوصی طور پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جناب اطہر من اللہ خراج تحسین کے مستحق ہیں جن کے احکامات کی بدولت مظلوم ہاتھی کو رہائی نصیب ہوئی۔ آج کاوان ہاتھی اپنی زندگی کے بہترین پینتیس سال ہمارے بچوں کا بچپن خوشگوار بناکر درد سے کراہتا کمبوڈیا چلا گیا ہے لیکن جاتے جاتے ہم سے یہ فریاد کرگیا ہے کہ خدارا، معصوم جانوروں کے درد کو محسوس کریں اور اگر انہیں خوش نہیں رکھ سکتے تو کم از کم قید کرکے تکلیف ہی نہ دیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)