• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
‎تحریر: مولانا اکرم اوکاڑوی۔۔۔ہیلی فیکس
” علماء انبیاء کے وارث ہیں ، عالم کی موت پورے جہان کی موت ہے “، ‎عُلماء کرام کی اموات اور شہادتیں اس تیزی سے ہو رہی ہیں جو لمحہ فکریہ ہے، اللہ تعالی علماء کرام اور دینی مدارس کی حفاظت فرمائے یہ اُمت مُسلمہ اور عالم اسلام کیلئے لامتناہی دینی ‎اور روحانی نقصان ہے، یعنی انسانی تخیلات و تصورات سے بھی کہیں زیادہ نقصان، ایک عالم دین کے دُنیا سے اُٹھ جانے کے نقصان کو صدیوں میں پورا نہیں کیا جا سکتا ، انتہائی غم و حُزن کے عالم میں کہنا پڑ رہا ہے برطانیہ میں ہمارے بزرگ عالم دین علامہ خالد محمود کی رحلت کے بعد کراچی میں مولانا مفتی محمد نعیم ، برمنگھم برطانیہ میں علامہ قاری تصور الحق ، کراچی میں مولانا ڈاکٹر عادل خان کی شہادت علاوہ ازیں دیگر بہت سے علماء کرام پھر ان تمام عظیم علماءکرام کے حادثات کے بعد پشاور کی ایک عظیم دینی درسگاہ مدرسہ عربیہ جامعہ زبیریہ میں دین حاصل کرنے والے طلباء اور اساتذہ پر بموں سے حملہ جس سے طلباء کی شہادتیں ہوئیں اور بہت سے طلباء زخمی بھی ہوئے ،دُنیا میں امن و کامیابی اور آخرت کی نجات کی راہ کے مُتلاشی مسکین اور معصوم لوگ ہیں، پشاور کی دینی درسگاہ مدرسہ زبیر یہ میں ہونے والے دھماکہ کے نتیجے میں معصوم شہید ہونے والے اللہ اور رسول کے مہمان طلباء کو پتہ ہی نہیں کہ وہ پاکیزہ اور جنتی روحیں کس جُرم کی پاداش میں شہید کر دیئے گئے اور زخمی ہونے والے مجاہد اور غازی اپنی بے بسی کا ماتم کرتے ہوئے اُداس آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے حُکمران ٹولے سے سوال کرتے ہیں کہ آخر ان کا قصور کیا تھا، سوائے علماء کرام اور چند مخصوص دوست احباب کے کوئی بھی ُان مظلوموں کے سر وں پر دست شفقت رکھنے والا نہیں ہے،عوام کی جان مال عزت و آبرو مُلک کو چلانے والے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عوام کے تحفظ کو یقینی بنائے، بائیس لاکھ مربع میل پر حُکمرانی کرنے والے حُکمران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ قول تو یاد ہو گا کہ میری سلطنت میں اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کے بارے میں عمر سے پوچھا جائے گا۔بہر حال علماء کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ورثۃ الانبیاء کے عظیم اور خوبصورت اعزاز سے نوازا اس کی ایک مثال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ بات سمجھنے میں ذرا آسانی ہو جائے کہاجاتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے ذہن میں ہمیشہ تین سوال کھٹکتے رہتے تھے (پہلا سوال )یہ تھا کہ میں واقعی سبکتگین بادشاہ کا بیٹا ہوں یا کہ نہیں ؟کیونکہ اُس کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ یہ بادشاہ کا حقیقی بیٹانہیں بلکہ لے پالک ہے (دوسرا سوال )یہ کہ علماء واقعی انبیاء کے وارث ہیں ؟ یہ تو خود بے اختیار طبقہ ہے انبیاء کا وارث تو بادشاہِ وقت یا کسی با اختیار آدمی کو ہونا چاہیے تھا ( تیسراسوال )یہ کہ میں جنت میں جاؤں گا یا نہیں ؟ انہی تین سوالات کو ذہن میں لے کر وہ ہمیشہ پریشان و سرگرداں رہتا تھا ، ایک مرتبہ کسی سفر سے واپس آرہا تھا کہ راستے میں ایک طالبعلم کو دیکھا جو کتاب ہاتھ میں لیے ایک کباب فروش کے دئیے (لائلٹین )کے پاس کھڑ ا ہے ہوا چلتی ہے تو یہ طالب علم دئیے کے ذرا قریب ہوجاتا ہے زیادہ آگے بھی نہیں بڑھ سکتا کہیں کباب فروش یہ نہ کہہ دے کہ بھئی لینا نہیں تو پھر یہاں کھڑے کیوں ہو، سلطان محمود غزنوی نے جب یہ منظر دیکھا تو خادم کو حکم دیا کہ مشعل اس طالب علم کو دے دی جائے۔ سلطان محمود غزنوی خود اندھیرے میں گھر تشریف لے آئے ۔ رات کو خواب میں آپﷺکی زیارت ہوئی آپﷺ نے ایک جملہ ارشاد فرمایا اور سلطان محمود کو اپنے تینوں سوالوں کے جواب مل گئے، جملہ ملاحظہ فرمائیں ’’اے سبکتگین کے بیٹے،تیرے جنت میں جانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ تو نے اس انبیاء کے وارث کو چراغ دیا‘‘،اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ زخمیوں کو صحت و تندرستی کی نعمت سے سرفراز فرمائے اور اس حادثے میں شُہداء کے درجات کو بلند فرما ئے ،اُن شہید طلباء کے والدین کیلئے ذریعہ شفاعت و نجات ُبنائے ، غمزدہ خاندانوں اور ورثاء کو صبر جمیل اور بہترین نعم البدل عطاء فرمائے، آمین ۔
تازہ ترین