• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے لاہور کا اپنا ایک ماحول تھا، اپنی ایک ثقافت اور روایات تھیں جس نےبھی وہ لاہور بہت قریب سے دیکھا ہے اور اس ماحول میں رہا ہے‘ وہ آج بھی اس کے سحر میں گرفتار ہے۔ یقین جانیے ایسا لاہور دنیا کے کسی ملک میں نہیں تھا اور نہ ہو گا۔ اس لاہور کے حسن و ثقافت کو لاہوریوں نے نہیں ‘باہر سے آنے والوں اور خصوصاً ہائوسنگ اسکیم والوں نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔بعض ہائوسنگ اسکیموں میں ایسے ایسے نو دولتیے آ چکے ہیں جو سارا وقت زمینوں کا لین دین ہی کرتے رہتے ہیں۔ لاہور کے دو حسن تھے‘ ایک اس کا اندرون شہر کا علاقہ اور دوسرا اس کے دیہات جو کم و بیش دو سو سے زائد تھے جہاں کچے مکانات ہم نے خود دیکھے ہیں۔ لاہور کے اس دیہاتی حسن کو ہائوسنگ اسکیموں والوں اور اندرون شہر کے حسن کو باہر سے آنے والوں اور جدید زمانے نے ختم کر دیا۔ ہم نے پچھلے کالم میں ڈرائی کلین کی دکانوں کا ذکر کیا تھا، لاہور کے ہر محلے اور بازار میں دھوبیوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں جہاںکوئلے والی استریوں سے کپڑے استری کئے جاتے تھے۔ کیا کپڑے استری ہوتے تھے۔ شلوار قمیص اگر آپ کپڑے خود گھر سے دھو کر لائے ہیں ،تو چارآنے میں استری کی جاتی تھی۔ اور اگر دھوبی کی دکان سے کپڑے دھلوا رہے ہیں تو ایک روپے میں شلوار قمیص کا سوٹ دھویا اور استری کیا جاتا تھا۔ اس دور میں کپڑوں خصوصاً سفید کپڑوں پر مائع لگوانے کا بہت رجحان تھا۔ کلف کہتے تھے اس کو۔ اب تو بہت کم محلوں اور بازاروں میں دھوبی کی ایسی دکانیں رہ گئی ہیں اور کوئلے والی استری تو اب شاید ہی کسی دکان میں ہو۔ بڑی وزنی استری ہوا کرتی تھی۔ ایک زمانے میں لاہور کے برتن والے بازار میں اور دیگر دکانوں پر یہ استریاں فروخت ہوا کرتی تھیں۔ لاہور کے برتن والے بازار کو بھانڈوں والا بازار کہا جاتا تھا۔ یہاں پیتل اور تانبے کے برتن فروخت ہوا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں پیتل کے حمام بھی وہاں فروخت ہوتے تھے جس کے اندر کوئلے/لکڑیاں ڈال کر پانی گرم کیا جاتا تھا۔ اس سے گھر کے افراد نہایا کرتے تھے۔

اس زمانے میں ہر گھر میں پیتل اور تانبے کے برتن استعمال ہوتے تھے، ان برتنوں کو کچھ عرصہ بعد قلعی کرانا پڑتی تھا۔ برتن قلعی کرنے والے محلوں میں آوازیں لگایا کرتے تھے، بھانڈے قلعی کرا لو۔ اب یہ آواز لاہور میں نہیں سنی جاتی۔ اب ا سٹین لیس اسٹیل کے برتن آ گئے ہیں۔ کبھی لاہور میں مٹی کے برتنوں کی بے شمار دکانیں ہوتی تھیں۔ مٹی کی ہانڈی کے کھانے کا مزہ ہی اور تھا‘ خصوصاً ساگ گوشت، آلو گوشت اور سرسوں کے ساگ کا مزہ مٹی کی ہانڈی میں پکنے کے بعد کمال کا ہو جاتا تھا۔ پھر کبھی اس شہر میں مٹی کے کھلونے، گھگو گھوڑے اور باریک کانے کے کھلونے فروخت کرنے والے بھی آیا کرتے تھے۔ پرانے کپڑوں کے بدلے سلور کے برتن دینے والے پھیری والے بھی آتے تھے۔ ارے بابا کیا لاہور تھا اور کیا ہو گیا۔ لاہور نے فلم انڈسٹری کو بڑے حسین چہرے دیئے۔ اس حوالے سے ایک واقعہ بھی سن لیں ، آئندہ کسی کالم میں لاہور میں فلمی سرگرمیوں پر بھی بات کریں گے۔ اس لاہور کے قدیم شہری اور تحریک پاکستان کے ایک کارکن وسابق مرکزی وزیر سید احمد سعید کرمانی (ایوب خان کے دور حکومت میں مرکزی وزیراطلاعات و نشریات رہے اور سینیٹر ڈاکٹر آصف سعید کرمانی کے والد تھے) 1952ء میں اراکین اسمبلی کے ایک وفد کے ساتھ امریکہ کے دورے پر گئے، ان دنوں محمد علی بوگرہ پاکستان کے سفیر تھے، وہاں پاکستان کے پارلیمنٹرینز نے امریکی حکومت کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں ، اس وفد کو ہالی ووڈ اسٹوڈیو کا بھی دورہ کرایا گیا۔ سید احمد سعید کرمانی کا تعلق لاہور کے علاقے قلعہ گوجر سنگھ سے تھا۔ اس وفد میں لاہور کے کچھ اور افراد بھی شامل تھے۔ احمد سعید کرمانی اس وقت عین عالم شباب میں تھے اور ایک خوبصورت اور وجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔ ہالی ووڈ اسٹوڈیو میں فلم کا سیٹ لگا ہوا تھا،وہاں ہالی ووڈ کے معروف اداکار رچرڈ برٹن اور اداکارہ الزبتھ ٹیلر بھی موجود تھیں جو اپنے دور کی حسین ترین اداکارہ تھیں۔ اسٹوڈیو اور کیمروں کی چکا چوند کی وجہ سے الزبتھ ٹیلر کے ماتھے اور چہرے پر پسینے کے چند قطرے نمودار ہو ئے تو سیٹ پر موجود ایک فوٹو گرافر نے جملہ کس دیا ’’الزبتھ ٹیلر کو پسینہ آ رہا ہے۔‘‘ اس جملے کو رچرڈ برٹن نے توہین آمیز سمجھتے ہوئے فوٹو گرافر کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا اور کہا’’ پسینہ تو گھوڑوں کو آتا ہے الزبتھ تو چمکتی دکھائی دیتی ہے۔‘‘ وہیں پر ہالی ووڈ کے شہرہ آفاق ڈائریکٹر سیسل بی ڈیمل بھی موجود تھے۔ انہوں نے سید احمد سعید کرمانی کو دیکھ کر اپنی فلموں میں کام کرنے اور امریکہ رُک جانے کے لیے کا کہا اوراصرار کیا کہ تم ایک خوبرو نوجوان ہو، تمہارا چہرہ مشرق اور مغرب کا امتزاج ہے لیکن احمد سعید کرمانی نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں قومی اسمبلی کا رکن ہوں اور ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں‘ میں فلموں میں کام نہیں کر سکتا۔

عزیز قارئین ہم آپ کو بتاتے ہیں اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکی فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ کی شوٹنگ بھی لاہور میں ہوئی تھی۔ یہ پہلی امریکی فلم تھی جس کی شوٹنگ لاہور شہر اور لاہور ریلوے اسٹیشن میں ہوئی تھی۔ اس کی ہیروئن ایوا گارڈنر تھیں۔ یہ فلم 1956ءمیں لاہور میں بنی تھی۔ فلم کی شوٹنگ کے دوران ایوا گارڈنر لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہری تھیں۔ یہ ایک سچی کہانی پر مبنی فلم تھی۔ آج بھی ان کے نام پر AVA GARDNER سوئیٹ ہے جس کا کرایہ پچاس ہزار روپے روزانہ ہے۔ بڑا خوبصورت کمرہ ہے جو ہم نے دیکھا ہے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین