پی سی بی کے تبدیل شدہ ڈومیسٹک ڈھانچے کی وجہ سے پاکستان میں کئی نوجوان کھلاڑیوں کو کرکٹ میں اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا ہے ، وجہ یہ ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں تین کروڑ آبادی والے آسٹریلیا کا کرکٹ اسٹریکچر مسلط کیا گیا ہے جس سے کھلاڑیوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے کرکٹ حکام بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں آسٹریلیین طرز کا کرکٹ اسٹریکچر کامیاب نہیں ہوسکتا۔
یہ تجربہ بری طرح سے ناکام ہوگا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی موجودہ ڈومیسٹک اسٹریکچر کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں ، ہمارے ملک میں زیادہ تر کھلاڑی پسماندہ علاقوں سے آتے ہیں اور معاشی پریشانی کا شکار ہوتے جن کا خواب قومی کرکٹ تک رسائی حاصل کرکے اپنے اور اپنے گھر والوں کے مستقبل کو سنوارنا ہوتا ہے۔
گوکہ اس میں ہر کھلاڑی کامیاب نہیں ہوتا مگر 19 اگست 2019 سے پہلے کھلاڑیوں کے پاس ڈیپارٹمنٹ کی صورت میں ایک متبادل موجود ہوتا تھا جس میں شمولیت اختیار کرکے وہ اپنے گھر کا چولھا جلا تے تھے ، قومی کرکٹ ٹیم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے جدوجہد بھی تیز کر تے تھے، ماضی میں کوئی کھلاڑی ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن یا ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرکے اچھی کارکردگی کے باوجود قومی کرکٹ ٹیم تک رسائی حاصل نہی کر پاتا تھا تو گریڈ ون یا گریڈ ٹو کا کوئی بھی ڈیپارٹمنٹ اس کو ملازمت مل جاتی تھی۔
وہ معاشی طور پر بھی خوشحال ہوجاتا تھا ، نئے ڈومیسٹک ڈھانچے نے کھلاڑیوں میں مایوسی اور بے یقینی کی ایسی فضا پیدا کر رکھی ہے جس کی وجہ سے کئی کھلاڑی پاکستان کی کرکٹ میں اپنے مستقبل کو غیر محفوظ سمجھتے ہوۓ بیرون ملک جاکر کرکٹ کھیلنے کو ترجیح دے رہے ہیں ان میں ٹیسٹ کرکٹ سمیع اسلم ، انٹرنیشنل کرکٹر رمیز راجہ جونئیر، فرسٹ کلاس کرکٹر عرفان جونئیر قابل ذکر ہیں یہ تو وہ کھلاڑی ہیں جو منظرعام پر آگئے ہیں جبکہ بہت سے ایسے نوجوان کھلاڑی بھی اس فہرست میں شامل ہیں جو پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ اور ریجنل انڈر 19 تک کرکٹ کھیل چکے تھے اور پاکستان میں کرکٹ کھیل کر اپنا مستقبل بنانا چاہتے تھے۔
مگر پورے پاکستان سے صرف 270 کھلاڑی ہی قائد اعظم ٹرافی فرسٹ کلاس اور سیکنڈ الیون کی جانب سے کھیلنے کے اہل ٹھرے ہیں بقیہ سینکڑوں کھلاڑی کہاں جائیں کیا کریں اسی لئے کئی کھلاڑیوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ بیرون ممالک میں دو سے تین سال تک کرکٹ کھیل کر وہاں سے بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کے اہل ہو جائیں گے جو ہماری ملکی کرکٹ کے لئے خاصہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
بیشتر کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ محکمہ جاتی ٹیموں کے ختم ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہمارا مستقبل غیر محفوظ ہے اور اب پاکستان میں کھلاڑیوں کا مستقبل صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوچز کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ گذشتہ دو سال سے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ تو ہے نہیں ذاتی پسند، ناپسند اور تعلقات کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا سلیکشن ہورہا ہے۔
جس کی وجہ سے پی سی بی کی جانب سے گذشتہ ڈومیسٹک سیزن میں ایک خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود ہم خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کرسکے گذشتہ ڈومیسٹک سیزن میں چھ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشنز سے 32 ، 32 کھلاڑیوں کو فرسٹ الیون اور سیکنڈ الیون کے لئے منتخب کیا گیا تھا اور اس طرح پی سی بی کی جانب سے پورے ملک کی چھ صوبائی ایسوسی ایشن کے 192 کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ دیا گیا تھا جس کا ہماری ملکی کرکٹ کو کوئی خٓاص فائدہ ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔
پی سی بی کو سوچنا ہوگا کہ گذشتہ ڈومیسٹک سیزن میں ہمارے کھلاڑیوں نے جدید تقاضوں کے مطابق ماڈرن کرکٹ کھیلی یا نہیں جب تک ہم ماڈرن کرکٹ کو اپنے ڈومیسٹک سیزن میں رائج نہیں کریں گے اور ڈومیسٹک کرکٹ اور بین الاقوامی سطح کی کرکٹ کے فرق کو کم نہیں کریں گے۔
ہماری کارکردگی کا گراف اوپر نہیں جا سکتا پاکستان میں قدرتی ٹیلنٹ کی وجہ سے کئی انڈر۔19 کرکٹر ز براہ راست قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں پاکستان میں اکیڈمیز میں تربیت دے کر کھلاڑی نہیں بناۓ جاتے ، پاکستان میں کرکٹ کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کرکٹ کی ساکھ کسی حد تک محفوظ ہے۔