• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں زندگی بھر ایسی خبریں پڑھ پڑھ کے کڑھتا اور اس ملک کے کرتوں دھرتوں کو کوستا رہا کہ فلاں فلاں سرکاری اہلکار یا افسر کو کرپشن یا کسی اور خباثت کے الزام میں فلاں جگہ سے فلاں جگہ ٹرانسفر کردیا گیا۔

میں اکثر سوچتا تھا کہ ایسا کرنے والا خود بددیانت، بدنیت اور ابنارمل ہوگا کیونکہ جہاں اس بدبخت کو ٹرانسفر کیا گیا، کیا وہاں پاکستانی نہیں بستے؟اس مجنونانہ حرکت کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایک بھیڑیئے کو علاقہ ’’اے‘‘ سے نکال کر علاقہ ’’بی ‘‘ پر مسلط کردیا گیا تاکہ وہاں جا کر تازہ دم ہونے کے بعد وہاں کے باسیوںکی بوٹیاں نوچنا اور وہاں کا حرام کھانا شروع کردے کیونکہ شیطان اسلام پورہ میں ہو یا کرشن نگر میں کام ایک سا ہی کرے گا۔

یہ ملک رویوں میں تضادستان ہے کہ آپ کو قدم قدم پر ایسے تضادات کے انبار ملیں گے جو بدکاروں کی سرعام حوصلہ افزائی اور تحفظ کرتے ہیں۔

آمدنی سے زیادہ اثاثے یا لائف سٹائیل کے بعد کسی کیس، ایف آئی آر یا گواہوں کی ضرورت کسی خائن کو ہی ہوسکتی ہے اور اگر آپ اس کا اطلاق کسی ’’مظلوم‘‘ نواز شریف پر کرتے ہیں تو ’’معصوم‘‘ پٹواری یا ایس ایچ او پر کیوں نہیں؟ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔

یہ احمقانہ اور مکروہ غیر منطقی کلچر اس طرح ہماری رگوں ریشوں میں سرائیت کر چکا کہ ملک کا وزیر اعظم بھی سرعام حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ ’’اگر میرے اثاثے میری جائز آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں تو کسی کو اس سے کیا لینا دینا؟کیا تکلیف؟ یاد رہے یہ نواز شریف کا ’’قول زریں‘‘ ہے۔

حکومت کا یہ فیصلہ بظاہر بہت معمولی لیکن دراصل بہت زبردست ہے کہ غلط کام کرنے پر سرکاری ملازم کا تبادلہ نہیں، افسر ہی برطرف کر دیا جائے گا۔ کامن سینس کی بات ہے کہ اگر اس فیصلہ پر عملدرآمد بھی ہو جائے تو یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہوگا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اتنا بڑا ریلیف جس کا کوئی آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر سرکاری دفتر عملاً سلاٹر ہائوس میں تبدیل ہو چکا ہے۔

چھوٹے سے چھوٹا ملازم بھی اپنے دفتر نہیں ’’اڈے‘‘ پر ’’دیہاڑی‘‘ لگانے جاتا ہے۔ سو عمران خان کو چاہیے اس پر فوکس کئے رکھے۔ بھاڑ میں جائیں نوکریاں اور گھر کہ جب ملیں گے، دیکھیں گے لیکن یہ فوری ریلیف ہے جس کے اثرات ہفتوں نہیں دنوں میں سامنے آ جائیں گے لیکن اس تضاد کے اندر بھی ایک تضاد چھپا ہوا ہے اور وہ ہیں سرکاری تنخواہیں۔

میں کئی بار مختلف ٹی و ی چینلز پر یہ بات کر چکا ہوں کہ مضحکہ خیز حد تک کم تنخواہوں میں زندہ ہر شخص اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کرپٹ ہے کیونکہ کتنے فیصد لوگ ہیں جنہیں پیچھے سے کوئی سپورٹ ہے۔ باپ سپورٹ کر رہا ہے یا بیوی کو ملنے والی جائیداد سے کرائے آ رہے ہیں۔

ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہوں گے۔ ایک ایس ایچ او کو دیکھیں، پھر اس کی شرمناک TAKE HOME پر غور فرمایئے اور پھر اس کے بے لگام اختیارات پر نظر ڈالتے ہوئے اس کے خاندان کا جائزہ لیجئے۔ میاں بیوی+ زیادہ نہیں 3بچے جو درمیانے درجہ کے سکولوں میں زیر تعلیم ہیں+ ماں باپ میں سے ایک یعنی 6افراد پر مشتمل خوشحال گھرانہ اور گھر کرایہ کا تو سقراطو! خود ہی سوچو کہ اگر وہ مع اہل و عیال ہنسی خوشی زندہ ہے، شادی غمی بھی بھگتا رہا ہے تو یہ ’’معجزہ‘‘ ہے کہ نہیں؟موجودہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود میرا دوست ہے اور سابق بیورو کریٹ بھی۔ قابل، محنتی، دیانتدار لیکن جب تک سروس میں رہا، والد سپورٹ کرتے رہے کہ تعلق تگڑے گھرانے سے ہے اور بزرگوں کو بیٹا اعلیٰ افسر چاہیے تھا سو وہ خوشی خوشی اپنا یہ شوق پورا کرتے رہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں شفقت محمود ہیں کتنے؟ اور جو باقی ہیں، وہ کیا کر رہے ہیں؟

اک اور قسم بھی ہے یعنی ’’زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے‘‘ صفدر بھی ہمارے دوست ہیں کبھی یہاں SMBR تھے اور ’’پاگل‘‘ ہونے کی حد تک دیانتدار، اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے لیکن ’’ہینڈ ٹو مائوتھ‘‘ تو عرض یہ ہے کہ ان اور ان جیسے بے شمار بھیانک برہنہ تضادات پر بھی غور فرمائیں کہ یہ ملک اور معاشرہ ایسے بے شمار تضادات کا کوہ ہمالیہ ہے۔جو بھی ہو یہ فیصلہ بہت زبردست اور عوامی ہے کہ کرپشن پر تبادلہ نہیں، برطرفی ہوگی۔ کلچر کی ’’تبدیلی‘‘ کی طرف مثبت قدم۔

تازہ ترین