پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل نیشا راؤ کہتی ہیں کہ اُنہیں کبھی اپنے خواجہ سرا ہونے پر نہیں افسوس ہوا اور نہ ہی اُنہوں نے کبھی کسی سے اس بات کا شکوہ کیا۔
نمائندہ جنگ نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل نیشا راؤ نے اپنی متاثر کُن کہانی سُناتے ہوئے کہا کہ مجھے کبھی اپنے ٹرانس جینڈر ہونے پر نہیں افسوس ہوا اور نہ ہی میں نے کبھی کسی سے اس بات کا شکوہ کیا، مگر کیا ایسا معاشرہ تشکیل نہیں پا سکتا، جہاں ہم اور ہم جیسے دیگر بچّوں کو والدین سے بچھڑنے کی اذّیت نہ سہنی پڑے۔
نیشا راؤ نے کہا کہ میرے والدین لاہور میں مقیم ہیں لیکن میں کراچی میں رہتی ہوں اور مَیں جب پہلی بار کراچی آئی تو اس وقت میٹرک میں تھی۔
اُنہوں نے کہا کہ مَیں لاہور سے اپنی دو ٹرانس جینڈر سہیلیوں کے ساتھ آئی تھی پھر واپس جاکر میٹرک کا امتحان دیا اورفرسٹ ایئر کی پڑھائی شروع کر دی لیکن میرا دل سمجھ چُکا تھا کہ میری دنیا، میری حقیقت میرے باقی بہن بھائیوں سے مختلف ہے لہٰذا مَیں نے اپنی ٹرانس جینڈر دوستوں کے ساتھ کراچی آنے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہی میرے اور میرے گھر والوں کے لیے بہتر تھا۔
نیشا راؤ نے یہ بھی کہا کہ جب سگنلز پر بھیک مانگتے وقت کوئی جھڑک دیتا تو دل بھر آتا کہ یہ میری قسمت مجھے کہاں لے آئی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ بادل گرجنے سے ڈر لگتا، پولیس والوں کے ڈنڈے پڑتے تو ماں کی نرم گداز گود یاد آنے لگتی کہ وہ ہوتی تو مجھے اپنی آغوش میں لے لیتی۔ زمانے کے سر دو گرم کا سامنا کیاا تو والد کی شفقت ،ان کا دیا تحفّظ یاد آتا۔
نیشا راؤ نے اپنی تعلیم کے حوالے سے بتایا کہ صبح سنگنلز پر بھیک مانگتی تھی اور رات میں اپنی پڑھائی کرتی تھی۔
اُنہوں نے بتایا کہ پہلے مَیں نے جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات (انٹرنیشنل ریلیشنز)میں ماسٹرز کیا پھر 2018ء میں سندھ مسلم لاء کالج سے وکالت کا امتحان پاس کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ تعلیمی سفر کے دوران مجھے کسی بھی موڑ پر یونی وَرسٹی انتظامیہ ، اساتذہ یا ساتھی طلبہ کی جانب سے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
نیشا راؤ نے اب تک کے اپنے کیسز کے حوالے سے بتایا کہ غالباً 50 سے زائد کیسز دیکھ چُکی ہوں جبکہ کام یابی کا تناسب اس حوالے سے سو فی صد رہا کہ مَیں نے اب تک ٹرانس جینڈرز ہی کے کیسز لیے ہیں، جو کچھ زیادہ بڑے مقدّمات نہیں تھے۔
جن سہیلیوں کے ساتھ وہ کراچی آئی تھیں اُن کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے نیشا راؤ نے بتایا کہ اب ہم ساتھ نہیں، ان میں سے ایک کا انتقال ہوگیا اور دوسری حیدر آباد میں ہے۔
نیشا راؤ نے اپنے والدین سے متعلق کہا کہ مَیں روزانہ امّی سے بات کرتی ہوں۔ ایک سال یا چھے مہینے میں گھر کاچکّر بھی لگاتی ہوں۔ مجھےگھر والوں نے ڈِس اون نہیں کیا تھا، مگر مَیں جانتی تھی کہ میرا ان کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ان کی اجازت ہی سے کراچی آئی۔ البتہ، ماں باپ نے یہ ضرور کہا تھا کہ ’’ تعلیم جاری رکھنا اورکسی قابل بن جانا‘‘ تو مَیں نے بھی ان کی بات کا مان رکھا اورکٹھن سے کٹھن حالات میں بھی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیا۔
واضح رہے کہ نیشا راؤ پاکستانی تاریخ کی پہلی خواجہ سرا وکیل ہیں۔