حکومت کے خلاف تحریک کس کروٹ بیٹھتی ہے، اس کے بارے میں حتمی طورکچھ نہیں کہا جاسکتا ،تاہم ملتان جلسہ کے بعد حکومت کے خلاف تحریک کا جو ٹیمپو بنا تھا ،وہ 13دسمبر کے جلسہ تک کیا رخ اختیار کرتا ہے، اس بات کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے،ملتان جلسہ میں مولانا فضل الرحمن نے یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت کے خلاف ہرضلع میں جمعہ اور اتوار کو احتجاجی جلسے اور ریلیاں ہوں گی ، ان کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ملتان کے جلسہ سے لاہور میں بڑا جلسہ کرنے کی پی ڈی ایم سر توڑ کوشش کر رہی ہے، پنجاب سے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو لاہور جلسہ میں لے جانے کے لیے رابطوں اور کارنر میٹنگز کا سلسلہ جاری ہے، جس طرح ملتان کے جلسہ کے لیے گردونواح کے شہروں سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے قافلے آئے تھے۔
اسی طرح لاہور کے لیے بھی بڑی تعداد میں کارکنوں کو پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے، ادھر حکومت نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ لاہور میں جلسہ کی اجازت نہیں دی جائے گی، تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ کوئی رکاوٹ بھی نہیں ڈالی جائے گی، اگر لاہور جانے والے راستے بند نہ کئے گئے تو ملتان،ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی، ن لیگ کے ارکان اسمبلی ،ٹکٹ ہولڈر ،عہدے داربڑے قافلوں کی شکل میں لاہور کے جلسہ میں شرکت کریں گے، کیونکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے واضح طور پر یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ لاہور کے جلسے کو تاریخی بنانے کے لیے ہر رکن پنا کردار ادا کرے ۔ادھر ملتان کے سیاسی حلقوں میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے جلسہ کے بعد پی ڈی ایم کی ایک میٹنگ میں اس بات پر خفگی کا اظہار کیا کہ جلسہ میں آصفہ بھٹو زرداری کی تقریر ان سے بعد کیوں کرائی گئی اور اتنا زیادہ ہائی لائٹ کیوں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نےانہیں یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ صرف جلسہ کی کامیابی کے لیے آصفہ بھٹو زرداری کو بلایا گیا، وگرنہ خطاب تو ویڈیو لنک کے ذریعے بلاول بھٹو زرداری نے کرنا تھا ،مگر انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے وہ ویڈیو لنک خطاب نہ کرسکے جس کی وجہ سے آصفہ بھٹوزرداری کو آخری وقت پر تقریر لکھ کر دی گئی جو چند منٹ پر مشتمل تھی۔
ذرائع کے مطابق مریم نواز نے یہ کہا کہ مجھے آصفہ بھٹو زرداری سے محبت ہے اور میں اسے اپنی چھوٹی بہن سمجھتی ہوں ،لیکن اس سے ایسا تاثر گیا ہے کہ جیسے آصفہ بھٹو زردای ان سے سینئر سیاسی رہنما ہیں ،تاہم پیپلزپارٹی کی وضاحت سے وہ کافی حد تک مطمئن ہو گئیں اور یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا،اب یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پی ڈی ایم کےاگلے جلسہ میں آصفہ بھٹو زرداری کو نہیں بلایا جائے گا اور بلاول بھٹو زرداری ہی لاہور کے جلسہ میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی کریں گے۔
ادھر شاہ محمود قریشی ملتان آئے ، تو انہوں نے اپنی حکومت کی اس پالیسی پر تنقید کی، جو ملتان کے جلسہ کو روکنے کے لیے اختیار کی گئی تھی ،حالانکہ یہاں عام سیاسی ورکر کا بھی کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسہ کو رکوانے کے لیے جو ڈرامہ بھی ہو،اسے مبینہ طورپر شاہ محمود قریشی کی مکمل حمایت حاصل تھی ،کیونکہ ملتان کے ڈپٹی کمشنر شاہ محمود قریشی کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں ،سارے فیصلے انہوں نے کئے اور شہر کو کنٹینروں سے بند کرنے اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے لئے 16 اور 3 ایم پی او کے ا حکامات بھی ان کی طرف سے جاری کئے گئے۔
آج شاہ محمود قریشی کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کوقاسم باغ سٹیڈیم میں جلسہ کرنے کی اجازت دے دی جاتی، تو اس کی مقبولیت کا پول کھل جاتا ،کیونکہ اسے بھرنا پی ڈی ایم کے لئے ناممکن ہوجاتا ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی ان پانچ، چھ دنوں میں بالکل خاموش اور لاتعلق رہے ، جن میں جلسہ کو روکنے کے لیے یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا،اگرچہ ان کا یہ کہنا ہےکہ وہ پاکستان میں نہیں تھے ،لیکن سیاسی حلقے ان کی اس دلیل کو نہیں مان رہے ،ان کا کہنا ہےکہ وہ بیرون ملک سے پاکستان کے تمام معاملات سے رابطہ میں رہے ۔لیکن اس معاملہ پر انہوں نے لب کشائی نہیں کی ، انہیں یہ بات اس موقع پر کرنی چاہیے تھی اور پنجاب حکومت کو یہ باور کرانا چاہیے تھا کہ جلسہ روکنا پی ٹی آئی کے مفاد میں نہیں بلکہ سیاسی طور پر اس سے نقصان ہوگا۔
ایسا کوئی اعتراض یا بات انہوں نے اس دوران نہیں کی، آج جب ہر طرف سے حکومت پر تنقید ہو رہی ہے کہ اس نے چار گھنٹے کے جلسہ کو چار دنوں پر محیط کرکے خوداپنے خلاف ایک بڑا محاذ بنایا، تو اس میں شاہ محمود قریشی نے اپنی آواز بھی شامل کر لی ہے ،گویاوہ اپوزیشن کے نقطہ نظر کو آگے بڑھا رہے ہیں ،حالانکہ انہیںاپنی حکومت کے فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے، ایسا وہ اس لئے نہیں کر سکتے، کیونکہ ملتان میں یہ سب نے دیکھا کہ حکومت اور انتظامیہ نے کس طرح احمقانہ انداز میں ایک جلسے کو روکنے کی کوشش کی اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کے چار بیٹوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے جبکہ ان کےصرف دو بیٹے سرگرم تھے اور رکاوٹیں ہٹانے میں ان کا کلیدی کردار تھا لیکن باقی دو بیٹے پس منظر میں رہ کر اپنا کردار ادا کر رہے تھے، اس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی نے جان بوجھ کر یہ دباؤ ڈالا ہو کہ گیلانی خاندان کے چاروں بیٹوں کو مقدمات میں ملوث کیا جائے ۔شاہ محمود قریشی ملتان میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران مسلسل کورونا وائرس کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے رہے ، انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ایسے موقع پر سیاست کر رہی ہے۔
جب کوروناکی شرح بڑھ چکی ہے،مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ خود شاہ محمود قریشی ملتان میں قیام کے دوران ہرتقریب میں اپنے پچاس ،ساٹھ افراد کے لاؤلشکر سمیت جاتے رہے ، جن میں سے بیشتر نے نہ تو ماسک پہن رکھے تھے اور نہ ہی سماجی فاصلے کا خیال رکھا جا رہا تھا،سوال یہ ہے کہ شاہ محمودقریشی جس بات پر تنقید کر رہے ہیں،خود اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے اور کیوں عوامی اجتماعات سے اجتناب کے بجائے اس میں شرکت کرتے ہیں۔
یہی حال وزیراعظم سے لے کر دیگر وزراء کا ہے ،اسی بات سے اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہےکہ حکومت پی ڈی ایم کی تحریک کو دبانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے جبکہ خود اس کے عہدے داران اور وزراء ایس او پیز کی جگہ جگہ دھجیاں اڑاتے نظر آرہے ہیں۔ جہاں تک کورونا وبا کا تعلق ہے تو اس کی شدت میں واقعی بہت اضافہ ہوا ہے، ملتان اور جنوبی پنجاب میں بھی کورونا کیسز کی شرح بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔