نواب شاہ زر، زن اور زمین کو فساد کی جڑ قرار دینے کے فلسفہ میں اب دور جدید کے تقاضوں کے باعث ایک اور لفظ بھی اس میں شامل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے اور وہ لفظ ہے موبائل و انٹرنیٹ جو کہ اب سب سے بڑے فساد کی جڑ بن چکا ہے۔ موبائل کے استمال سے جہاں انسان پُوری دنیا جو کہ اب گلوبل ولیج بن چکی ہے، سے رابطے کے علاوہ گھر بیٹھے معلومات اور علم حاصل کر لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ نقصان میں وہ بھولی بھالی، معصوم بچیاں ہیں، جن کے ماں باپ اور بہن بھائیوں نے ان پر حد سے زیادہ اعتبار اور ان کے میل جول پر نہ تو نظر رکھی اور معلومات ملنے پر بھی صرف نظر کیا، جب چلا تو پانی سر سے اونچا اور خاندان کی عزت جس کو بچانے کے لیے ہر قربانی دی گئی تھی، خاک میں مل چکی ہے۔
اس سلسلے میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے، جن کو یاد کرکے دل کانپ جاتا ہے۔ نواب شاہ میں حسینی روڈ اور مریم روڈ کے سنگم پر ایک ایسی بستی ہے، جہاں دن میں ویرانی اور شامیں اور رات گھنگھروں کی جھنکار سے گونجتی ہیں۔ اس بستی میں جو لوگ بستے ہیں، بدقسمتی سے ان کا ذریعہ آمدن جسم فروشی سے حاصل ہونے والی کمائی سے ہے، جب کہ اس بازار حُسن میں ایسی خواتین اور بچیوں کو لاکر پیشہ کرایا جاتا ہے، جو کہ غربت کے ہاتھوں مجبور والدین یا والد کی موت کے بعد کفالت نہ کرسکنے کے باعث کسی نہ کسی طرح بکتی بکاتی اس بازار کی زینت بنادی جاتی ہیں اور انہیں زندہ درگور کردیا جاتا ہے۔ تاہم اب اکثریت ایسی خواتین اور بچیوں کی ہوتی جارہی ہے، جو موبائل فون پر لڑکوں سے دوستیاں کرکے اور بعد ازاں گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کرکے اور پھر اس شادی کی ناکامی کی صورت میں اپنے گھر کے راستے بند ہونے کے بعد پیٹ کی دوزخ اور سر چھپانے کے لیے اس گناہ کے بازار میں پہنچ جاتی ہیں۔
گزشتہ دنوں نواب شاہ پولیس نے پروجیکٹ کے گناہ کے بازار کے ایک ایسے گروہ کو پکڑا تھا، جس میں کاشف نامی نوجوان نے اپنی ماں اور پھوپھی کے ساتھ مل کر موبائل فون کے ذریعہ لاہور کے ایک اچھے خاندان کی لڑکی کو اپنے سنہرے جال میں پھنسایا اور اس کو گھر سے بھگاکر اپنے مزموم مقاصد پورے کرکے نواب شاہ کی اپنی رشتے دار نائکہ کو بیچ دیا۔ اس سلسلے میں وومن پولیس اسٹیشن کی انچارج مریم بھرٹ نے رابطہ کرنے پر ہم کو بتایا کہ لاہور کے ایک اعلی گھرانے کی انتہائی خُوب صورت اور ناز ونعم میں پلی بڑھی اعلی تعلیم یافتہ لڑکی کو پتوکی کے گناہ کے بازار سے تعلق رکھنے والے لڑکے نے فیس بک اور موبائل فون کے ذریعہ اپنی بے لوث محبت کے جال میں پھنسایا اور لڑکی پاکیزہ محبت اور شادی کے مقدس بندھن میں خود کو باندھنے اور محفوظ حصار میں آنے کے لیے لاہور سے اپنے ماں باپ بہن بھائیوں اور خاندان کی عزت کو پامال کرکے اپنے خوابوں کے شہزادے کے دیس پتوکی پہنچ جاتی ہے ۔
فرار ہونے والی لڑکی گھر سے سونا زیور نقدی تو لائی ہی تھی، ساتھ میں آتے آتے خاندان کی عزت اور وقار لے آئی۔ تاہم اس کے ساتھ پاکیزہ محبت کرنے کا دعوئے کرنے والے ہوس کے پجاری نے سب سے پہلے تو مال قبضہ میں کیا اور پھر اس معصوم اور بھولی بھالی لڑکی کی عزت کو بھی نہ صرف خود پامال کیا، بلکہ اسے نواب شاہ کے بازار گناہ میں فروخت کردیا۔
اس بارے میں ایس ایچ او وومن پولیس اسٹیشن مریم بھرٹ کے مطابق لڑکی کے والدین اور رشتے دار جو صاحب حیثیت تھے، انہوں نے کئی ماہ تک اپنی بچی کو ملک کے طول وعرض میں ڈھونڈا، لیکن اس کا کھوج نہ مل سکا۔ تاہم اسی دوران حکومت کی جانب سے ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت خون کے سیمپل لینے کے لیے جب ٹیمیں پہنچیں، تو یہ لڑکی جو کہ ایڈز کے مرض میں مبتلا اس حال میں ملی کہ پورے جسم کو سگریٹ کا داغ دے کر جلایا گیا تھا۔
جب کہ اس کے ساتھ جو نائکہ ملی، وہ بھی فاقہ کشی کا شکار زندگی کی آخری سانسیں گن رہی تھی ۔ ایس ایچ او وومن پولیس اسٹیشن مریم بھرٹ نے بتایا کہ اس لڑکی کو اس حال تک پہنچانے والا ظالم انسان اس کی پھوپھی اور ماں بھی قانون کے شکنجے میں آئیں ۔ تاہم کیس ثابت ہونے کے بعد انہیں جیل حوالے تو کردیا گیا۔
تاہم لڑکی کے ورثاء کے بقول ان کی بچی انہیں مل چکی تھی اور وہ اس کی تشہیر کرکے خود کو مزید رسوائی میں مبتلا نہیں کرناچاہتے تھے اور انہوں نے اسی پس منظر میں اسی میں عافیت سمجھی کہ وہ اپنی عزت کے زندہ درگور جنازے کو لے جاکر اس کی بقیہ زندگی کو گمنامی کی نظر کردیں اور یوں موبائل فون کے غلط استمال سے اس بچی کی زندگی تباہ ہوئی ، بلکہ پُورے خاندان کی نیک نامی پر داغ لگ گیا۔
اسی طرح ایک اور لڑکی نواب شاہ کے بازار حُسن سے برآمد کی گئی، جس کو ڈیرہ غازی خان سے اغواء کیا گیا تھا، اس لڑکی کے والد نے پولیس کو درخواست دی تھی کہ اس کی بیٹی کو موبائل فون کے ذریعہ دوستی کے بعد مالدار گھرانے کے خوبرو نوجوان سے شادی کا جھانسہ دے کر گھر سے بھگایا گیا اور پھر اس کو نواب شاہ کے بازار حُسن میں بیچ دیا گیا۔ پولیس کے مطابق اس کی این سی داخل کرکے چھاپہ مار کر لڑکی برآمد کرلی گئی، لیکن لڑکی کے والد نے ایف آئی آر کرانے سے انکار کیا۔
ان کاکہنا تھا کہ وہ خاموشی سے اپنی بیٹی کو گھر لے جانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی مزید رسوائی نہ ہو اور پولیس نے ضروری کارروائی کرکے لڑکی کو اس کے والد کے حوالے کردیا،جب کہ اسی تناظر میں قاضی احمد پولیس نے دادو کی ایک عورت اور اس کے گروہ کے دو کارندوں کو اس وقت گرفتار کیا تھا، جب وہ پنجاب سے موبائل فون پر اپنے گروہ کے ایک لڑکے کے ذریعہ دوستی کراکر سنہرے مستقبل کے خواب دکھا کر گھر سے بھاگ کر آنے والی لڑکی کو چھ لاکھ روپیہ کے عیوض گاہک کے حوالے کررہے تھے اور اس گروہ کی سرغنہ عورت نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے پنجاب کی درگاہوں سے اپنی عورت کارندوں کے ذریعہ درجنوں معصوم خواتین کو بہلا پھسلا کر اغواء کرکے بیچا۔
تاہم خواتین اور لڑکیوں کے اغواء یا گھر سے بھگا کر فروخت کی جانے والیوں کے سلسلے میں یہ قدر مشترک سامنے آئی کہ جدید دور کے رابطہ کے ذریعہ موبائل فون کا ایسے کیسوں میں مرکزی کردار رہا ہے اور گھر والوں کی اپنی بچیوں یا خواتین پر نگرانی میں غفلت اور کوتاہی اور موبائل فون کے ذریعہ رانگ نمبر کی کالوں کے ذریعہ رابطے ان کے گھر سے نکل کر گناہ کے بازاروں کی دلدل میں گرنے کا سبب بنے ہیں۔