چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے قومی ایئرلائن پی آئی اے کی پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کر دیا۔
سپریم کورٹ میں پی آئی اے کے سربراہ ارشد محمود ملک کی تعیناتی کیس کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔
دوران سماعت ارشد ملک کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے انگلینڈ نہیں جاسکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر ہوابازی نے پارلیمنٹ میں کہا پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی آئی اے میں کتنے آدمی بھرتی کیے گئے؟ جس کے جواب میں ارشد ملک نے کہا کہ کوئی بھرتی نہیں ہوئی 2 ہزار ملازمین کو نکالا گیا۔
چیف جسٹس نے ارشد ملک کو بات کرنے سے روک دیا، فاضل جج نے کہا کہ آپ کے وکیل موجود ہیں وہ بات کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے چلانے کے لئے پروفیشنل افراد کی ضرورت ہے، بڑی بڑی ایئرلائنز بند ہوچکی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ پی آئی اے پر اربوں روپے کا قرض بھی انتظامیہ کی وجہ سے ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پی آئی اے تو کورونا سے پہلے ہی بیٹھ چکی تھی، پی آئی اے میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ پہلی فرصت میں یورپ میں لینڈنگ پر سے پابندیاں ہٹوائیں، پی آئی اے نے کچھ نہیں بتایا پابندیاں ہٹانے کیلئے کیا کرینگے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ پی آئی اے کے کتنے پائلٹ معطل ہوئے؟
جس پر پی آئی اے کے وکیل نے کہا کہ پی آئی اے پائلٹس کے 141 لائسنس معطل، 15 منسوخ ہوئے، جبکہ 5 پائلٹس کے لائسنس مشکوک قرار دیئے گئے۔
وکیل ارشد ملک نے کہا کہ عدالت وقت دے بہتری لائیں گے، پی آئی اے کو 480 ارب روپے کا قرض ادا کرنا ہے۔
عدالت نے ارشد ملک کے وکیل کی مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت جنوری تک ملتوی کردی ہے۔