سانحہ اے پی ایس کے افسوسناک سانحے کو 6 برس کا عرصہ بیت گیا، آج بھی سانحہ آرمی پبلک اسکول کے المناک سانحے کا درد آج بھی برقرار ہے۔
سانحہ اے پی ایس میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے طالب علم ملک حسن طاہر اعوان کی روداد آج ہم ان ہی زبانی آپ کو بتاتے ہیں جنہوں نے اس المناک واقعے میں اپنے بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے کھویا۔
ملک حسن طاہر اعوان سانحہ اے پی ایس کے شہداء میں شامل ’ملک اسامہ طاہر اعوان‘ کے بھائی ہیں ، ملک حسن طاہر اعوان خوش قسمتی سے دہشتگردوں کی گولی کا نشانہ بننے کے باوجود ،اسکول سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب رہے ۔
ملک حسن طاہراعوان کا اس خوفناک واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس روز کلاس میں دو پیریڈ گزرجانے کے بعدہمیں فرسٹ ایڈ ٹریننگ کے لیے دیگر سیکشنز کی طرح آڈیٹوریم میں جمع ہونے کا کہا گیا ۔
آڈیٹوریم جاتے ہوئے عقبی قطار میں لگے اسامہ (بھائی )کی آخری مسکراہٹ آج بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی ، ملک حسن کہتے ہیں وہ ملاقات میری اور اسامہ کی آخری ملاقات تھی ۔
آڈیٹوریم میں ٹیچر نے مجھے کیپ اوپر کر نے کو کہا (انہیں شک تھا کہ کہیں ہم نے کانوں میں ہیڈ فون نہ لگائے ہوئے ہوں )میں نے جیسے ہی کیپ اوپر کیا آڈیٹوریم ہال اندھا دھند فائرنگ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔
حسن بتاتے ہیں کہ اس کے فوراً بعد ہی انہوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آڈیٹوریم سے بھاگنے کی کوشش کی جس میں میرے جوتے بھی اتر گئے، شوز لینے جب میں واپس مڑا تو دہشت گرد کی نظروں میں آگیا اور اس نے مجھے اور میرے دائیں بائیں کھڑے ساتھیوں کو نشانہ بنایا میرے دونوں ساتھی اس کی گولی کا نشانہ بن گئے۔
دہشت گرد کی اگلی گولی میرے لیے تھی لیکن خوش قسمتی سے وہ گولی میرے سر پر لگنے کے بجائے میری اوپر ہوئی کیپ پر لگی اور وہ اڑگئی،جس کے باعث میں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
حسن طاہر کہتے ہیں کہ اے پی ایس سانحے میں بچ جانے والے طالبعلموں کے لیے اس سانحہ کو بھلانا ناممکن ہے اس واقعے کے ہر ذہن پر انمٹ نقوش تاحیات موجود رہیں گے۔
ملک حسن نے ہمیں بتایا کہ اس سانحے کے تقریباً ایک ماہ بعد جب اسکول دوبارہ جانا شروع کیا تو ہر شے اجنبی اجنبی سی لگی اب نہ پڑھنے کو دل کرتا تھا نہ کھیلنے کودنے کو ،سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ ٹیچرز کیا پڑھا رہے ہیں ہر لیکچر کو گھنٹوں بار بار پڑھنا پڑھتا تب بھی وہ دماغ میں نہ بیٹھتا تھا کیونکہ وہاں صرف آڈیٹوریم میں سانحے کے دن گرا دوستوں کا خون اور بھائی کا ہنستا مسکراتا نظروں کے سامنے رہتا۔
حسن کہتے ہیں کہ اب تو جینے کا اصل مقصد ہی بھائی (اسامہ) کے مقصد کی تکمیل کرنا ہے اسامہ وطن عزیز کے لیے ایک ایسا سوفٹ ویئر تیار کرنا چاہتے تھے جس کے تحت مسلح دہشت گردوں کے اجتماعی جگہوں پر داخلے سے قبل سکیورٹی اداروں کو آگاہی حاصل ہوسکے تاکہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی لائی جاسکے۔