• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اس کتاب میں کسی بڑے آدمی کی کوئی کہانی نہیں، اس میں کسی وزیراعظم، کسی صدر، وزیر،مشیر، سفیر، سرکاری بابوؤں یا ارب پتیوں کی کہانیاں نہیں، ان سے دوستیوں، میل میلاپوں کی داستانیں نہیں، اس کتاب میں عام، لاچار،بے بس انسانوں کی داستانیں ہیں، اس لئے اس کتاب کا ہیرو میرے گاؤں کا کمہار چاچا میرو ہے، جس کی زندگی کوکاغذ پر انڈیلتے ہوئے کئی دفعہ میری آنکھوں میں آنسو آئے، کئی بار میں قلم پکڑے بیٹھا رہا، کئی مرتبہ لکھتے لکھتے مجھے رُکنا پڑا‘‘۔

یہ چند لائنیں دوست رؤف کلاسرا کی کتاب ’’گمنام گاؤں کا آخری مزار‘‘ کے پیش لفظ سے لی ہیں، رؤف کلاسرا اس سے پہلے آخر کیوں، ایک سیاست کئی کہانیاں، ایک قتل جو نہ ہوسکا، شاہ جمال کا مجاور جیسی پڑھنے لائق کتابیں لکھ چکے ہیں، رئوف کلاسرا گاڈ فادر (ماریو پوزو)، تاریک راہوں کے مسافر (بالزاک)، سنہری آنکھوں والی لڑکی (بالزاک ) جیسے باکمال ترجمے بھی کرچکے ہیں، گمنا م گاؤں کا آخری مزار کیا کتاب، میں اسے دو سانسوں میں پڑھ گیا، لیہ کی حسینہ بی بی ہو، ڈرائیور الطاف کی کتھا ہو، اسکول ماسٹر اسلم کی بیٹی کا ولیمہ ہو، چاچا خدا بخش قصائی کے دکھ ہوں، سعودی عرب میں حادثے میں فوت ہونے والے ملتان کے ذوالکفل بخاری کی کہانی ہو، ملتان کے چار درویش ہوں،1970کی دہائی کے ہندوستان کے ایک ڈپٹی کمشنر کی بیوی کی ایمان تازہ کردینے والی کہانی ہو، جنگ عظیم دوم میں جرمنی میں جنم لینے والا ایک انسانی المیہ ہو، جس میں خاتون گارڈ اس جرم کی عمر قید بھگتنے پر تیار ہوجائے جو اس نے کیا ہی نہیں ہوتا،بس ایک راز تھاجو وہ ججوں کو نہیں بتانا چاہتی تھی، لہٰذا اسے اپنی عزت نفس کے مجروح ہونے یا جیل جانے میں سے ایک کاانتخاب کرنا تھااور وہ جیل چلی گئی، اسی طرح فیصل آباد کے ضیاء کی افسردہ کر دینے والی داستان ہو، ملتانی کینٹین بوائے کی کہانی ہو، لورالائی بلوچستان کے ہندوگھرانے کے دکھ ہوںیا طارق چوہدری کا غم ہو، آپ جوبھی پڑھیں گے، دل بار بار پڑھنے کو چاہے گاکیونکہ سب کچھ ایسا جو دل سے نکلا اور دل میں اتر جانے والا۔

میرا یہ ماننا ہے کہ ہماری صحافتی دنیا میں جاوید چوہدری کے بعد لفظوں کو کہانی بنا دینے میں رؤف کلاسرا سہر فرست، ایک کہانی کا آغاز ملاحظہ ہو’’ ایک دفعہ پھر گاؤں میں ہوں، برسوں بعد دس محرم کو گاؤں آیا ہوں، نعیم بھائی کی قبر کھینچ لائی ہے، میرا جسم اسلام آباد میں رہتا ہے لیکن میری بے چین، اداس روح اسی قبر کی مجاور ہے‘‘،مجھے یاد آگیا، میرے اور رؤف کلاسرا کے مشترکہ بزرگ دوست ڈاکٹر ظفرالطاف جو پانچ سال پہلے ہمیں چھوڑ گئے اور جنہیں پانچ سال بعد بھی مرحوم کہنے کو دل نہیں کرتا، ان ڈاکٹر صاحب کو میں اکثر بھڑکاتا’’یہ کیا آپ رؤف کی کہانیاں سنتے، پڑھتے رہتے ہیں، یہ ایک چھوٹی سی عام بات کو یوں بتاتا، بیان کرتا ہے، جیسے دنیا کی سب سے دلچسپ کہانی سنا رہا ہو‘‘، ڈاکٹر صاحب مسکراتے، پھر کہتے ’’چھوڑو سنانے دیا کرو،ہم نہیں سنیں گے تو اس کی کہانیاں کون سنے گا ‘‘،یہ کہہ کر ڈاکٹرصاحب لمحہ بھر کیلئے رکتے، پھر یہ فقرہ ضرور کہتے ’’لیکن یار اس کی کہانیاں ہوتی بڑی مزیدار ہیں‘‘، اس کے بعد میری اور ڈاکٹر صاحب کی جو بحث ہوتی، وہ یہاں لکھی نہیں جاسکتی، لیکن یہ بتادوں، یہ تو میں ویسے ہی ڈاکٹر صاحب کو چھیڑتا تھا ورنہ اندر سے مجھے بھی پتا تھا کہ کہانی بنانے، کہانی سنانے میں رؤف پہنچا ہوا بزرگ ہے۔

وہ لوگ جو مجھ اور رؤف کی طرح گاؤں میں پلے بڑھے، سرکاری اسکولوں میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھے، جنہوں نے ماسٹروں کی ماریں کھائیں، جنہوں نے بچپن میں ہی فاقوں کے مزے چکھ لئے، جو کھیتوں میں گھروالوں کے ساتھ روزانہ کام کیا کرتے، جو مال مویشوں کا چارا بنایا کرتے، جو پیسے اکٹھے کر کے کرائے کے وی سی آر پر فلمیں دیکھا کرتے، جو غم روزگار کی وجہ سے گاؤں سے نکل آئے مگرا ن کے اندر سے کبھی گاؤں نہ نکل سکا، وہ یہ کتاب گمنام گاؤں کاآخری مزار ضرور پڑھیں، لیکن جو شہروں کی پیداوار ہیں وہ یہ کتاب ضرور پڑھیں، کیونکہ وہ یہ کتاب پڑھیں گے تو انہیں پتا چلے گا کہ گاؤں کیا، گاؤں کی زندگی کیا، غربت کیا، غریب کیا۔

اسی کتاب میں وچھوڑے کے دکھ نامی کہانی ان والدین کی کہانی ہے جو بچوں کو پڑھانے کیلئے باہر بھجواتے ہیں مگر پھر ا ن کے بچے واپس نہیں آتے، اسی کہانی کا ایک پیرا گراف ملاحظہ ہو،مجھے پاکستان کے ایک بڑے صحافی ایچ برکی یاد آئے، ان کے دوبچے تھے، امریکہ پڑھنے گئے اور وہیں بس گئے، برکی صاحب تنہائی کا شکار ہوئے، وہ روزانہ ضیاء الدین صاحب، احمد حسن علوی ودیگر دوستوں کے پاس آتے اور بچوں کی دی ہوئی تنہائی کو بھلانے کی کوشش کرتے، آخری عمر میں وہ بیمار ہوئے، کچھ دن اسپتال میں بھی رہے، فوت ہوگئے، ان کے بچے آئے، تدفین کی، اسلام آباد کا وہ گھر جس میں ان کے باپ کی یادیں ہی یادیں تھیں، وہ بیچا اور واپس امریکہ لوٹ گئے۔

اسی کتاب میں رؤف کلاسرا نے اپنے دوست اور اچھے وقتوں کے معروف سیاستدان ڈاکٹر شیر افگن کی موت کی کچھ یوں تصویر کشی کی ’’داکٹر شیر افگن کی قبر پر مٹی پڑرہی تھی اور میں یادوں کے میلے میں بہتا جارہا تھا، عظیم روسی ٹالسٹائی یادآرہا تھا، جس نے کہا تھا، انسان کو مرنے کے بعد کتنی زمین کی ضرورت ہوتی ہے؟ ڈاکٹر شیر افگن نے پی پی اسی وجہ سے چھوڑ دی تھی کہ جب اس کا جوان بیٹا فوت ہوا تو بی بی نے تعزیت کا فون نہ کیا، لیکن میانوالی کا یہ نیازی شیخ رشید کی موجودگی میں اسی بی بی کیلئے پرویز مشرف سے لڑپڑا کیونکہ جنرل صاحب نے باتوں باتوں میں بی بی کو برا بھلا کہہ دیا، ڈاکٹر شیر افگن نے کہا’’جنرل صاحب اب اگر آپ نے کوئی بات کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا،بینظیر بھٹو میری پارٹی کی سربراہ اور میری وزیراعظم تھیں ‘‘۔ مشرف سے لڑائیاں کرنے والے ڈاکٹر صاحب پر جب وکیل حملہ آورہوئے اور وکیلوں نے کہا ’’مشرف مُردہ باد کا نعرہ ماریں، ہم آپ کو چھوڑدیتے ہیں‘‘، جان خطرے میں تھی مگر ڈاکٹر صاحب نے صاف انکار کردیا، رؤف کلاسرا کی کتاب پڑھتے ہوئے آپ جہاں بے اختیار ہنس پڑتے ہیں وہاں اچانک آپ کی آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں، رؤف کلاسرا کی کتاب کے ٹائٹل صفحے پر صحیح لکھا ہوا ہے کہ ’’وہ تحریریں جو کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں‘‘ واقعی یہ تحریریں کبھی بوڑھی نہیں ہوں گی۔

تازہ ترین