اس ترقی یافتہ دوٗر میں حصول علم کوئی مشکل کام نہیں تاہم کہاوت کے مطابق اس کیلئے پاپڑ آج بھی بیلنے ضرور پڑتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے داخلہ جات کا سلسلہ بھی آن لائن سہی تاہم کرونا کے باعث زندگی کے تمام شعبے شدت سے متاثر ہیں۔تعلیمی درسگاہوں میں طلبہ و طالبات کی رہائش اور عرصہ دراز سے مختلف اوقات کے دوراں ہاسٹلوں سے ملنے والی طلبہ و طالباتکے قتل کے بعد لاشیں ملنے کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کچھ ایسے ہی حالات سے ٹنڈو غلام علی کے وارڈ نمبر 5 میگھواڑ محلہ نزد سرکاری ہسپتال کے مکین 17 سالہ ہندو نوجوان مہیش ولد رمیش مہاراج کے ساتھ پیش آیا جس کی حیدرآباد پٹھان کالونی میں اس کے رہائشی مکان سے مبینہ طور پرپھندہ لگی نعش ملنے کی ورثاٗ کو اطلاع موصول ہوئی۔
بتایا جاتا ہے کہ نوجوان مہیش مہاراج کو ایک سال قبل سول ہسپتال حیدرآباد (لمس) میں ٹیکنیشن کے کورس میں داخلہ دیا گیا تھا۔ یہ نوجوان بہت شوخ، چنچل اور ہنس مکھ تھا ۔اس نے اپنے تربیتی کورس کو مکمل کیا جس کے بعد کہا جاتا ہے کہ اچانک دسیگر لیب ٹیکنیشن طلبہ کے ہمراہ اس کا نام شیٹ میں شامل نہ کئے جانے پر دلبرداشتہ ہوکر اس نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی ۔ اس ضمن متوفی نوجوان مہیش مھاراج کے چچا مکیش نے جنگ کو بتایا کہ اس کے بھتیجے کا نام لیب ٹیکنیشن کی لسٹ سے غائب تھا جس کی اطلاع پر ہم نے تگ و دو کرکے اسے دوبارہ بحال کروایا۔ لسٹ میں نام شامل کیے جانے کا مہیش کے والد کو لیٹر بھی موصول ہوا۔
لیکن چند روز بعد ہی ر مہیش کا لیب ٹیکنیشن کورس لسٹ میں سے نام ہٹاکر بچوں کے وارڈ میں شامل کردیا گیا۔ مکیش کا کہنا تھا کہ اس کے بھتیجے مہیش کی مبینہ خودکشی کی اطلاعاس کے گھر والوں کومالک مکان نے بذریعہ فون پر دی اور ہم اس اطلاع پر حیدرآباد پہنچے۔ ہمیں بتایا گیا کے مہیش کی نعش سول ہسپتال منتقل کردی گئی ہے جہاں اس کا پوسٹ مارٹم اور ضروری کاروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ مکیش کا یہ بھی کہنا تھا کہ مہیش کی لاش پولیس کی بجائے اہل محلہ نے جائے وقوعہ سے اسپتال پہنچائی۔ مکیش نے کہا کہ جب ہم نے جائے وقوعہ کا جائزہ لیاتو کمرے کی ابتر حالت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ مہیش نے خودکشی نہیں کی بلکہ اسے مبینہ طور سےقتل کیا گیا ہے جس کے بعداس کی موت کو خودکشی کا رنگ دینے کے لیے خودکشی کا سوانگ رچایا گیا ہے۔
پولیس نے سول اسپتال حیدرآباد میں ضروری کارروائی کے بعدلاش ورثاء کے حوالے کردی ۔وہ جب اسے آبائی گائوٗں ٹنڈو غلام علی لے کر پہنچے تو گھر میں کہرام مچ گیا۔ مہیش کی والدہ کو غشی کے دورے پڑنا شروع ہو گئے۔ نوجوان مہیش مہاراج کی مبینہ خودکشی والی خبر شہر اور قرب و جوار میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور علاقے کی فضا سوگوارہو گئی۔ مہیش مھاراج کی میت کو شہر کے قدیمی قبرستان مسان میں سپردخاک کردیا گیا۔
نوجوان مہیش مہاراج کے والد رمیش کا کہنا تھا بے گناہ بیٹے کی موت کا دکھ تمام عمرہمارے ساتھ رہے گا۔ ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی پھر کیوں اس کی جان لی گئی؟ہم پوسٹ مارٹم رپورٹ ملنے کا انتظار کررہے ہیں، اگر یہ قتل کا واقعہ ہوا تو مہیش کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے مقدمہ درج کروایا جائے گا۔
اس سلسلے میں سول سوسائٹی کے ر ہنماؤں کا کہنا ہے کہ نوجوان مہیش کی پراسرار موت کی تفتیش کا آغاز سول ہسپتال(لمس) حیدرآباد سے کیا جائے جہاں وہ لیب ٹیکنیشن کا کورس کر رہا تھا۔علاقے میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ نوجوان مہیش مھاراج کو گلادباکرقتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو پھندا لگا کر ٹانگنے کے بعدخودکشی کا رنگ دیاگیا ہے۔ذرائع کے مطابق مہیش کے گلے پر رسی کے دو نشانات پائے گئے ہیں اور گلے میں جو آئی ڈی کارڈ کی ڈوری ہے اس کے ذریعہ واردات کی گئی اور مذکورہ ڈوری آخر تک اس کے گلے میں بندھی ہوئی تھی۔
مستزاد یہ کہ جائے وقوعہ سے نعش ملنے کے وقت نعش کے گھٹنے زمین پر تھے اور ہاتھ بھی کھلے پائے گئے تھے۔۔نوجوان مہیش مہاراج کے والد رمیش، چچا مکیش اور شہر کے عوامی حلقوں نے چیف جسٹس سندھ ھائی کورٹ، آئی جی سندھ ،ایم ایس سول ہسپتال (لمس) حیدرآباد اور ڈی آئی جی پولیس حیدرآباد سے مطالبہ کیا ہے کہ نوجوان مہیش مہاراج کی موت کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرواکر اصل حقائق سامنے لاکر قاتلوں کو بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔