پاکستان کے قومی الیکشن مکمل ہوجانے پر سب سے پہلے ملک کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو مبارک باد دینے کا موقع ہے کیونکہ یہ مبارک باد ان کی ہمت مردانہ اور جرأت قلندرانہ کے لئے ہے، پے در پے کئی انتخابات میں مسلسل ناکام ہونے اور شکستیں کھانے اور کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود وہ ابھی تک میدان سیاست میں ڈٹی ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ان کا سیاسی میدان سے ہٹنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ ان کی اس مسلسل جدوجہد اور سعی پیہم پر ان کو مبارک ہو۔ قیام پاکستان کے وقت کئی نامور مذہبی رہنما اور دینی جماعتیں مثلاً مجلس احرار اور جمعیت علماء ہند قائد اعظم محمد علی جناح کے خلاف تھیں۔ ان کے خلاف شعلہ بیان مقررین شعلے اگلتے تھے۔ پاکستان بن گیا تو وہ پاکستان کے اقتدار کے حصول کے لئے کوشاں ہوگئے 1970ء کے الیکشن میں مذہبی جماعتوں کو یقین تھا کہ وہ میدان مارلیں گی لیکن نتیجہ نکلا تو معلوم ہوا کہ صرف کراچی اور صوبہ سرحد کی حد تک ان کو پذیرائی نصیب ہوئی۔ مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالمصطفٰی الازہری، پروفیسر عبدالغفور اور محمود اعظم فاروقی کراچی سے جبکہ ڈیرہ اسمٰعیل خان سے مفتی محمود اور اکوڑہ خٹک سے مولانا عبدالحق منتخب ہوئے۔ یہ قانون ساز اسمبلی تھی، اس اسمبلی نے آئین پاکستان تشکیل کیا اور مسلمان کی تعریف کا تعین کا انقلابی کام اس اسمبلی نے ہی نے تاریخ ساز بل منظور کیا جس کے مطابق منکرین ختم نبوت کو آئین پاکستان نے غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی کا کردار قائدانہ اور تاریخ ساز تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک چلی تو علماء نے مرکزی کردار ادا کیا لیکن اس کے بعد کچھ جماعتیں جنرل ضیاء الحق کے بہلاوے میں آگئیں اور فوجی حکومت کا حصہ بن گئیں۔ اس وقت سے لیکر آج تک یہ قوم کا اعتماد حاصل نہیں کرسکیں۔ اگر یہ اس وقت فوجی آمر کے خلاف ڈٹ جاتے اور الیکشن کا مطالبہ کرتے تو شاید قوم انہیں ایک بار آزماتی لیکن انہوں نے نو ماہ کی حکومت کو ترجیح دی اور قوم نے پھر انہیں نظر انداز کرنے کا فیصلہ کرلیا اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اپنے منظور نظر نواز شریف کی ”گرومنگ“ کی اور انہیں صوبائی سطح سے لیکر بتدریج مرکزی سطح کا لیڈر بنالیا۔ خفیہ اداروں کی مدد سے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنا تو میاں نواز شریف ایک صوبائی سطح کے قائد تھے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ اپنے مخصوص طریق کار اور ”مہربان“ دوستوں کی مدد سے اوپر آگئے۔ ممتاز صحافی مجیب الرحمن شامی نے ایک ڈائجسٹ میں ان دنوں میاں صاحب کے تعارف کے لئے ایک عنوان ”گونگا پہلوان“ تجویز کیا تھا۔ ان کے مطابق خاموش رہنے والے میاں صاحب آہستہ آہستہ سب کے منظور نظر بن جائیں گے اور یہی ہوا علماء ،صلحا نے اپنی قیادت کا تاج میاں صاحب کے سر پر سجا دیا اور آج بھی کئی صاحبان جبہ و دستار اور خانقاہوں کے سجادہ نشین ان کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کرچکے ہیں اور انہیں اپنا سیاسی امام مان چکے ہیں۔ جس طرح آج کل کے یہ سجادگان ذی وقار اور پیرزادگان اپنے دربار میں حاضر ہونے والے مریدوں کو خاص کرم فرماتے ہوئے ان کے نذرانے کے جواب میں کچھ ”تبرک“ عطا فرماتے ہیں۔ یعنی کچھ تحفے علامتی طور پر برکت اور ”تبرک“ کے لئے دیتے ہیں اس طرح جب آپ سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کرتے ہیں تو وہ خوش ہوکر ”تبرک“ کے طور پر سجادہ نشین کے دربار اور مذہبی رہنما کی قوت گفتار کو معیار بناکر انہیں قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی کی نشست عطا کرتے ہیں یا پھر سینٹ کا ممبر بنانے کا وعدہ کرتے ہیں یا پھر اس امید پر زندہ رکھتے ہیں کہ اس طرح وفاداری نبھاتے رہیں اپنے مریدوں اور چاہنے والوں کو ہماری سیاسی قیادت کی خوبیاں بیان کرتے رہیں۔ امید رکھیں کہ آئندہ آپ کو بھی نوازا جائیگا۔ یعنی بقول اقبال ۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے والے ان مذہبی رہنماوٴں، پیران طریقت اور رہنما شریعت کو مبارک ہو کہ انہیں ان کے محبوب سیاسی رہنما نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اسمبلی تک کا سیاسی سفر طے کرادیا ہے اب وہ بڑی خوش اسلوبی سے اپنے مریدوں کا روحانی سفر طے کراتے رہیں گے۔ میاں محمد نواز شریف کو بھی مبارک باد دینے کو جی چاہتا ہے کہ قوم نے ان کی مستقبل قریب میں چلنے والی ”بلٹ ٹرین“ کا یقین کرلیا ہے اور خاص طور پر پنجاب کے سپوتوں نے انہیں اپنا متفقہ لیڈر چن لیا ہے۔ قدرت نے میاں صاحب کو تیسری باری عطا کردی ہے اب انہیں موقع ملا ہے کہ وہ کسی کی بیساکھیوں کے بغیر مکمل آزادی سے اپنے وعدوں اپنے نعروں کو عملی شکل دیں۔ وہ پورے ملک میں معاشی ترقی اور امن و امان کا مثالی نظام قائم کر دیں۔ طالبان ان کو اپنا ثالث مقرر کرچکے ہیں اس لئے ان کو بم دھماکوں کے خاتمے کے لئے قاتل کریں۔ سعودی بادشاہ کے وہ منظور نظر ہیں اس لئے وہ سعودی حکمرانوں کو اس کے لئے ”ضامن“ بناسکتے ہیں۔ وہ ملک میں بے روزگاروں کے لئے روزگار کے دروازے کھول دیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو کاروبار شروع کرانے کے لئے حسب وعدہ بینکوں کے قرضوں کے سلاب کا رخ نوجوان نسل کی طرف موڈ دیں۔ لوڈشیڈنگ کو ملک سے بھگادیں۔ ملک کا چپہ چپہ خوشحالی کی روشنی سے جگمگا اٹھے اور ہر طرف ایک مثالی پرامن اور باعزت روزگار کا ماحول فراہم کرنے کے لئے انہیں انقلابی اقدامات اٹھانے کے لئے کوئی نہیں روکے گا۔ انہیں اس موقع کو غنیمت اور شاید قدرت کی طرف سے آخری موقع سمجھتے ہوئے اپنی آخرت اور عاقبت سنوارنے کا سامان مہیا کرنا چاہئے۔ اہلیان پاکستان اور بالخصوص پنجاب کے عوام کو مبارک ہو کہ ان کی امیدوں کا مرکز ان کی چاہتوں کا محور ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے والا اور پاکستان کو خوشحالی سے مالا مال کرنے والا میاں نواز شریف آپہنچا۔ اب بس چند مہینوں کی دیر ہے پھر دیکھنا یہاں کس طرح میرٹ ،اصول، انصاف اور عدل پر مبنی نظام انقلاب قائم ہوتا ہے۔ یہاں کوئی بے روزگار نہیں رہے گا، بم دھماکے اب ختم سمجھو، لوڈشیڈنگ کا عذاب اب ہمیشہ کے لئے رخصت ہونے کو ہے۔ حکمران اپنے محلات نما عالیشان رہائش گاہوں کو چھوڑ کر عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر ان کے درمیان رہنے کے لئے آجائیں گے اور وہی محسوس کریں گے جو عوام الناس محسوس کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائیگا کہ جہاں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی اور خوشحالی ہی خوشحالی نظر آئیگی۔ لیکن اے میرے غیور باہمت اور پرعزم قوم کے لوگو! ذہنی طور پر اس طرح کے بیانات کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار رکھو کہ آپ کو آئندہ ایک دو سال تک شاید اس طرح کے حوصلہ شکن بیانات سننے کا موقع ملے۔ مثلاً ”ہم کیا کریں ہمیں خزانہ خالی ملا ہے، خزانہ بھر جائے گا تو پھر کچھ کرکے دکھاسکیں گے“، ”پچھلے حکمران لوٹ کر چلے گئے ہیں ہمیں کچھ موقع دیں تاکہ ہم اپنی کارکردگی دکھا سکیں“، ”قوم حوصلہ رکھے انشاء اللہ دو تین سالوں میں حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے“، ”مہنگائی ختم نہیں کرسکتے یہ بین الاقوامی حالات کا نتیجہ ہے، ہمارے ہاتھ میں جادو کی چھڑی نہیں ہے“، اور پھر شاید دو سال کے بعد اس طرح کے بیانات ہوں ”ہمارے خلاف سازش ہوری ہے ہمیں قوم کی خدمت کا موقع نہیں دیا جارہا، قوم ہمارے ہاتھ مضبوط کرے بہت جلد مشکلات پر قابوپالیں گے“ وغیرہ وغیرہ۔ آخر میں عمران خان کو مبارک ہو، یہ الیکشن ایک اشارہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو ایک مثالی قائد حزب اختلاف کے طور پر ثابت کریں، اور اگر موقع ملے تو بہادروں اور شجاعوں کی سرزمین خیبرپختونخوا میں ”نیا پاکستان“ کی ایک جھلک دکھا دیں تاکہ ان لوگوں کے منہ بند ہوسکیں جو کہتے ہیں کہ خان صاحب کو تجربہ نہیں ہے۔ قدرت نے آپ کو ایک علاقے میں حکمران جماعت اور پورے پاکستان کا اپوزیشن لیڈر بننے اور اگلے الیکشن کا فاتح بننے کا موقع فراہم کیا ہے۔ عمران خان! آپ کو آنے والے انتخابات کی مکمل کامیابی مبارک ہو۔ اقبال نے کہا تھا۔
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے