وزیرِ اعظم، عمران خان اور کابینہ نے ٹیکسٹائل پالیسی 2020-2025ء کی منظوری دے دی ہے،اس پالیسی میں وہ سب کچھ فراہم کردیا گیا ہے، جس کا ایک عرصے سے ٹیکسٹائل انڈسٹری مطالبہ کررہی تھی۔ سیلز ٹیکس ری فنڈ، جو ایک عرصے سے تاخیر کا شکار تھا، اس کی ادائی بھی کردی گئی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی بھی آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسو سی ایشن (آپٹما) کے مطالبوں کے مطابق ہوگئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا انڈسٹری وہ سب معیشت کو وہ سب دے پائے گی، جس کی ضرورت ہے۔ خاص طور پرجو ماضی میں ہوتا رہا ہے، وہ نہ ہو، یعنی زرِمبادلہ مکمل طور پر پاکستان میں لایا جائے، اس کا کچھ حصّہ باہر نہ رکھا جائے۔
اس بار حکومت پہلی مرتبہ خاص طور پر طویل مدّتی منصوبہ بندی کے ساتھ انڈسٹری کو ترقی یافتہ بنانا چاہتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ برآمداتی شعبے کو ترجیحاتی بنیاد پر ضروری رعایتیں مہیا کی جائیں گی ،جن کا آغاز ہوچُکاہے۔ حکومت نے تاخیر سے سہی،مگر گزشتہ حکومتوں کے برعکس یہ محسوس کرلیا ہے کہ اس انڈسٹری کو مشن کے تحت سانس لینے کا موقع دیا جانا چاہیے تاکہ صحت مند برآمدات کے ساتھ ساتھ مُلک میںزرِمبادلہ بھی لایا جاسکے اور تاکہ آئی ایم ایف سے جان چھوٹے۔
تاہم، حکومت کا دوسری مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ بجلی کے نرخ نہ بڑھیں، کیوں کہ آئی پی پی کی وجہ سے گردشی قرضے 2600ارب روپے ہوگئے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے ان کے ساتھ جو معاہدے کیے ، وہ یک سر مُلکی کے مفاد کے خلاف تھے۔
ان سے معاہدے کے تحت جو بجلی لینی ہے، وہ اس مقدار میں نہیں دیتے۔ اس وقت پاکستان میں 34 ہزار میگا واٹ بجلی پیداکی جا رہی ہے،جس کی طلب گرمیوں میں 23ہزار میگا واٹ ہوتی ہے اور ادائی 34ہزار میگا واٹ کی جاتی ہے، جب کہ سردیوں میں بجلی اس کا استعمال 16ہزار میگا واٹ تک محدود رہ جاتا ہے، مگر صارف کوادائی 100فی صد زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ انہی نرخوں پر بجلی ہیٹر استعمال کرکے 34ہزار میگا واٹ بجلی استعمال کی جائے تو (فل کیپیسٹی) نرخ کم ہوسکتے ہیں۔
ویسے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک طویل عرصے سے حکومتیں خود ہی بجلی کا بحران پیدا کرتی آئی ہیں، اس کے باوجود موجودہ حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بجلی کے بہترین نرخ مقرّر کردیئے ہیں۔ اب حکومت کو یہ فیصلہ انتہائی سمجھ داری سے کرنا چاہیے کہ اگر عالمی مالیاتی ادارے کےپاس دوبارہ جانا ناگزیر ٹھہرے،تو روپے کی قدر میں کمی نہ کی جائے، تاکہ خساروں سےبآسانی نمٹا جاسکے۔
تیسری دنیا کے عوام کو یہ بھی سمجھ لینی چاہیے کہ امریکا، یورپین یونین اور جاپان نے عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطے کی پیروی نہیں کی تھی، اسی لیے دوحہ کانفرنس ناکام ہوئی ،کیوں کہ مذکورہ تمام ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2013ء تک 370ارب ڈالر زر تلافی کسانوں کو فراہم کرتے ہیں، ختم کردیں گے، مگر ایسا نہ ہوا۔ اسی لیے لاطینی امریکا کے کسان عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کو قحط کے مترادف سمجھتے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ حکومتیں 95ارب ڈالرز قرضہ چھوڑ کر گئیں، برآمدات میں روپے کی قدر فکس رکھنے کی وجہ سے درآمدات زیادہ ہوتی رہیں، تو توازنِ ادائی کا خسارہ 35ارب ڈالرز تک پہنچ گیا۔
حالاں کہ کرنٹ اکائونٹ اس حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے کہ اسے فاضل کردیا گیا ۔ تاہم، 10ارب ڈالرز مزید قرضے لیے گئے تاکہ گزشتہ قرضوں کی قسطیں ادا کی جاسکیں۔ اس ضمن میں اگلے تین سال میں 24ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی، تاکہ قرضوں کی قسطیں ادا ہوسکیں۔حکومتوں کو سمجھنا چاہیے کہ پیداواری شعبے میں قرضوں کا پیسا لگانا ضروری ہے ، تاکہ قرضے بوجھ نہ بنیں۔آپٹما کا یہ بھی کہنا کہ ’’گزشتہ حکومتوں کے ری فنڈز وقت پر نہ ادا کرنے کی وجہ سے ٹیکسٹائل کا شعبہ خسارے کا شکار ہوا تھا، بعدازاں کورونا کے اثرات نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ موجودہ حکومت نے ری فنڈ بھی ادا کیا اور سابقہ حکومت کی واجب الادا، 70ارب روپے کی رقم بھی ۔‘‘ اس قدر مشکل وقت میں جہاں اپوزیشن ہر وقت حکومت پر لعن طعن کرتی اوراسے نالائق تصوّر کرتی ہے،حکومت نے معاشی اِشاریوں کوقدرے بہتر کرکے عقل مندی کا ثبوت دیا ہے۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بارے میں وزیراعظم، عمران خان کا کہنا درست ہے کہ ’’آخر ہم کب تک پھل اور دھاگا برآمد کرتے رہیں گے، اب ویلیو ایڈڈ پر زور دینا ہوگا۔‘‘ اس تناظر میں دیکھنا یہ ہےکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری برآمدات میں کس طرح رہنمائی کرتی ہے، مالیاتی سہولت (LTFF) اور ایکسپورٹ فنانسنگ دونوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، جو سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، وہ 838ارب روپے کی ہیں۔اس حوالے سے آپٹما کے چیئرمین ،گوہر اعجاز کا کہنا ہے کہ ’’اگلے پانچ سال تک موجودہ پالیسی مستحکم رہی ،تو ٹیکسٹائل کی برآمدات دُگنی ہو جائیں گی۔‘‘ لیکن آپٹما کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کی پیداواری رفتار پرانی مشینری کی وجہ سے کم ہے۔ ترقّی یافتہ ممالک اب ٹیکسٹائل انڈسٹری میں تیز رفتار روبوٹس استعمال کررہے ہیں، لہٰذاپرانی ڈگر سے اجتناب ناگزیر ہوگیا ہے۔
نئے کام کرنے والوں کے لیے یہ خطرہ بھی ہے کہ یورپین یونین نے جو جی ایس پی (GSP) کی سہولت دے رکھی ہے، وہ کھو نہ دیں۔ یعنی اگرفرانس کے ساتھ تعلقات بہتر نہ ہوئے ،تویہ سہولت ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی تناظر میں دیکھاجائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ نئے سال کے اوائل میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کے اجلاس میں پاکستان کومشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ جب تک ہم اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوں گے، ’’گورے‘‘ اسی طرح ہمارے خلاف مضحکہ خیز حرکتیں کرتے رہیں گے۔ کیا کریں کہ مسائل پہلے ہی سے کافی ہیں،جنہیں کورونا وائرس نے زیادہ گمبھیر بنا دیا ہے۔ نتیجتاً ،اپریل، مئی 2020ء میں مینوفیکچرنگ میں 23سے 42فی صد کمی ریکارڈ کی گئی، بے روزگاری میں اضافہ ہوااور برآمدات میں 32فی صد تک کمی دیکھی گئی۔
گزشتہ کئی دَہائیوں سے دو نمبری، ٹیکس چوری، ملاوٹ، منی لانڈرنگ، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، سٹہ بازی نے غربت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ۔ سودی معیشت کی پرواز کی مثال یہ ہے کہ 2017ء میں پاکستان کے پانچ بڑے تجارتی بینکوں کا منافع 300ارب روپے تھا، یہ رقم بیرونی سرمایہ کاروں کی نج کاری کی وجہ سے ڈالرز میں باہر جاتی ہے،جب کہ کریڈٹ کارڈ کایہ منافع 36فی صد سود اور حکومت کے ٹی بلز کے عوض قرض لینے کی وجہ سے بڑھا۔ دوسری جانب کرپٹ مافیا نے برانڈڈ اشیاءکی نمائشی خریداری اور صارفیت اس قدر بڑھادی ہے کہ غریب منہگائی کی چکّی میں پِس پِس کر بغیر علاج ہی مرتے رہے، یوں سفید پوشوں کی پائوں کی چادر، رومال بن گئی۔ اس کے باوجود ٹیکسٹائل، برآمدات، ترسیلاتِ زر، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی، کرنٹ اکائونٹ فاضل اور مینوفیکچرنگ میں پیش رفت اس مشکل گھڑی میں حکومت کی قدرےبہتر کارکردگی ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کیا کچھ برباد کر جاتی ہے۔
اسٹیل اور ریفائنریز ابھی تک بحال نہیں ہوسکیں۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہونی چاہیے کہ بہت زیادہ لنگر اور دستر خوانوں کے ذریعے لوگوں کومفت کھانا کھلانے سے محتاج معیشت پیدا ہورہی ہے۔ ہمیں بھی چین کی طرح لوگوں کو اثاثہ سمجھ کر ہنرمند بنا کر ،سرمایہ بنانا چاہیے،انہیں مچھلی کھلانی نہیں چاہیے،پکڑنی سکھانی چاہیے۔ جمودی معاشی نقطۂ نظر سےیہ تجزیہ بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستان کو نرم انقلاب کی ضرورت ہے، لیکن فی الوقت اس کے لیے کوئی تیار نہیں۔
شاید معیار ِزندگی کی جدید دوڑ میں سادگی اور صبر و قناعت، مسابقت اور بقاء کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتے۔ جدید ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے ہماری خود تخلیقی اور خود اختراعی کی سطح 70 سالوں سےمایوس کُن حد تک نہ صرف پس ماندہ ہے، بلکہ ہم پس ماندگی سے نجات کے لیے بنیادی انفرا اسٹرکچر سے بھی عاری ہیں۔
ہماری خارجی تجارت خام مال ،تیل اور مشینوں پر مبنی ہےاور خساروں کی یہی تجارتی بے وزنی آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتی ہے ۔ زرتلافی (سبسڈی)میں جتنی بھی گڑبڑ اور فراڈ تھا، موجودہ حکومت اسے درست کررہی ہے۔سابق وزیرِ خزانہ، شوکت عزیز نے تو جی ڈی پی زیادہ دکھانے کے لیے سٹّے بازی کے ذریعے قیمتیں بڑھا دی تھیں۔ ایسا ہی کچھ سا بق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈارنے بھی کیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان تجارتی خساروں اور بجٹ میں ریونیو خسارے میں رہتا ہے۔ پاکستان میں 32لاکھ مال دارافراد یا تو ٹیکس ہی ادا نہیں کرتے یا انتہائی کم اداکرتےہیں۔
عوام سے ملنے والے سیلز ٹیکس میں سے 25سے 30فی صد حکومت کو ادا ہوتا ہے ،باقی انتظامیہ کے افسران ہضم کرجاتے ہیں۔ 70سال سے جاری یہی نالائقی اور کرپشن ہمیں مالیاتی خساروں سے دوچار رکھتی ہے، پھر گھبرا کر حکومتیں ملکی سرمایہ کاری کے لیے نج کاری کرتی اور قرضے لیتی ہیں۔یوں ملکی وسائل اور منافعے کی باہر منتقلی معاشی کساد بازاری، مستقل منہگائی اور بے روزگاری کی وجہ بنی رہتی ہے۔ آئی ایم ایف کے نسخے ’’پاکستان میں اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام ‘‘کے تحت کبھی بھی صحت مند معاشی سرگرمیوں کو بڑھاوا نہیں ملا۔ یہ نسخہ زراعت اور لائیو اسٹاک کی ترقّی کا دشمن ہے۔لکھتے لکھتے کاغذ، قلم ختم ہوجائیں گے، مگرسابقہ حکومتوں کی نالائقیوں اور کرپشن کی داستانیں ختم نہیں ہوں گی۔
حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ملٹی نیشنل کمپنیزمعصوم پاکستانی عوام سے کمیشن کے نام پر ادویہ پر ہزاروں گُنا کمیشن وصول کرتی آرہی ہیں۔ ڈاکٹر فیروز نے 1971ء میں ’’سامراج اور پاکستان‘‘کے نام سے کتاب لکھی تھی، جس میں بتایا گیاکہ ’’اس وقت امریکا میں جو گولی ایک روپے کی ملتی ہے، وہی گولی پاکستان میں 79روپے کی ملتی ہے۔‘‘ ملٹی نیشنلز ، جینرک نام سے نفرت کرتی ہیں۔ پاکستان میں مقامی کمپنیوں کو مقابلے میں مشکل پیش آتی ہے۔ یہ بھی ایک ایسا موضوع ہے ،جس پر عوام کی بے چارگی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔
ذراسوچیں کہ جب بجلی کے بقایاجات 400روپے ہوں گےتو بر آمدات میں کس طرح اور کیوں کر اضافہ ہوگا۔دوسری جانب، بجلی چوری، ترسیل کے خراب نظام اور حکومتوں کا اپنے اداروں کو خود بجلی کے بل ادا نہ کرنا، کسی المیے سے کم نہیں ۔
پانی کے ادارے بجلی کا بل ادا نہیں کرتے اور بجلی کے ادارے پانی کا بل ۔ ایسے معاشی ماحول میں آئی ایم ایف کے نسخوں سے ترقّی کی کونپلیں نہیں پُھوٹ سکتیںاپنی جڑیں نہیں اُگ سکتیں۔ ان پر عمل کرنے سے ایک جانب ادائیگیوں میں عدم توازن ہے،تو دوسری طرف تجارتی عدم توازن، منہگائی اور سرمائے کے فرار کے مسائل پاکستانی معیشت کے لیے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔ ٹرانس نیشنل سرمائے اور مسابقانہ منڈی کی بے رحم قوتوں کی یلغار کا مقابلہ منصوبہ بند معیشت کے بغیر ناممکن ہے۔ آئی ایم ایف سے جان چُھوٹے ،تو سماجی سرمایہ کاری دسترخوانوں اور لنگروں پر خرچ نہ ہو، عوام کی ہنر مندی پر خرچ ہو۔ مُلک میں کرپشن اور غلط پالیسیوں کے باوجود گوادر پورٹ ایک امید کی کرن ہے۔
ابھی جہاز لنگرانداز ہورہے ہیں۔ ایک جہاز سے 200؍ٹن مچھلی پاکستان، حویلیاں کے ڈرائی پورٹ (سی پیک) تک لے جائے گا۔ یہ ایک امید افزا پیش رفت ہے، اس سے پاکستان کی برآمدات کو بھی فائدہ ہوگا۔ بنگلا دیش، بھارت ٹیکسٹائل کی بر آمدات کے لیے وافر زر تلافی فراہم کرتے ہیں، گیس، بجلی نرخوں میں کمی اور ری بیٹ وقت پر مہیّا کیا جاتا ہے اور اب پاکستان بھی اسی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہوگیا ہے۔ پاکستانی معیشت کو اپنےپائوں پر کھڑاکرنے کے لیے ضروری ہےکہ عوام کو ہنر مند بنایا جائے، ٹیکنیکل ایجوکیشن کورسز عام کیے جائیں۔ ان کی جدید تعلیم پر بھاری سرمایا کاری کریں، تا کہ غیر معمولی اسکلز سے لیس لیبر پیدا ہو۔
چین، فلپائن، تھائی لینڈ، ویت نام، ملائیشیا اور سنگاپور نے ہنرمندی کو غیر معمولی ترقّی دی ، تب ہی آج اُن کی معیشت دن دُگنی، رات چوگنی ترقّی کر رہی ہے۔ یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ نوجوانوں کو درآمدی تعلیم تودی جاتی ہے،لیکن انہیںیہ نہیں پڑھایا جاتا کہ مسلّط کردہ سود، سٹّے بازی، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، کرنسی کا ہیرپھیر، اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے بڑے ملکوں کی لُوٹ مار، قرضوں کا جال، آئی ایم ایف اور عالمی تجارتی تنظیم کے شکنجے کس قدر وبالِ جان ہیں یا مقامی سطح پر منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کی وجہ سے کس طرح معیشت کو نقصان ہوتا ہے۔
بین الاقوامی تجارت میں پس ماندہ ممالک کی ترقّی کے راستے بند ہیں۔ یہ نظام قرضوں کی مالیت کے مساوی پیداوار نہیں دے رہا، نہ ہی صلاحیتوں کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔ قرض دینے والی غیر ملکی ایجینسیاں اپنے قرضوں کی وصولی کے لیے مالیاتی نظم و ضبط سخت کرنے پر زور دیتی ہیں ،جس سے معاشی شکنجہ مزید سخت ہوجاتا ہے، کیوں کہ پیداوار کا انحصار غیر ملکی مشینوں پر ہے۔ دراصل فطری ترقّی کا انحصار علم و دانش کی اپنی اختراعی صلاحیتوں پر ہوتا ہے۔ قرضوں نے سماجی قدروں کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ چند امیروں کے لیے غریب ممالک پر قبضہ ہوجاتا ہے، جس سے سماجی ٹوٹ پھوٹ، بد حالی جنم لیتی ہے۔
بقول معروف تجزیہ نگار اور دانش وَر ،اکبر علی ایم۔اے ’’جو قومیں دَرپیش چیلنجز شناخت کرنے سے عاری ہوں، وہ اپنی شناخت کیا کروا سکتی ہیں۔ سائنس، انڈسٹری، کامرس اور مالیات کا اپنا خودکار سسٹم نہیں۔ وہ من حیثیت القوم یلغار میں نہ بھاگ سکتی ہے ،نہ ٹھہر سکتی ہے۔‘‘ دو نمبری نے دکھاوے کا معیار زندگی بنا دیا ہے۔
کنزیوم ازم مقامی مینوفیکچرنگ کے بغیر معاشی تباہی ہے، ہم اسمگلنگ کرتے ہیں۔ قرضوں کا پیسا ملتا نہیں کہ ان پر عیاشی پہلےشروع کردیتے ہیں ،عوام کی بھلائی ، فلاح و بہبود کے نام پر ملنے والا پیسا ، انہی پر خرچ نہیں کرتے۔یہی چیزیں منہگائی میں اضافے کا شاخسانہ ثابت ہوتی ہیں، پھر حکمران طبقے سے لے کر چھوٹے تاجروں تک ہر کوئی کرپشن میں ملوّث ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دیانت داری، ایمان داری کے ساتھ انسانی ہنرمندی، زراعت، لائیو اسٹاک، ایگرو ویل انڈسٹری اور برآمدات میں ویلیو ایڈڈ پیداوار پر زور دیں۔