اپوزیشن اتحاد ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ آج کل شیخ رشید وزیر داخلہ ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں میز بان حامد میر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید میرے دوست ہیں ان کی عزت کرتا ہوں۔
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ آج کل شیخ رشید احمد وزیرِ داخلہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا ایک جانب ڈی آئی خان کی پولیس کہتی ہے کہ سیکیورٹی واپس لینے کا کہا جارہا ہے، جبکہ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ جان کا خطرہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ ہمیں ڈرانے کے لیے ان عناصر کو تو راستہ نہیں دیا جارہا ہے، عظیم تر مقصد کے لیے کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں، ہم خراج دینے کو تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے علماء اور لوگ شہید کیے گئے ملک بچانے کے لیے ہم نے قربانیاں دی ہیں۔
’ یہ وہ لوگ نہیں جن کے کسی بیان کا میں نوٹس لوں‘
برطانوی ایجنسی کے بیان سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پہلے تو مجھے یہ بتائیں ایم آئی ہے کیا؟ یہ وہ لوگ نہیں جن کے کسی بیان کا میں نوٹس لوں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے بیانات سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات پر کیا اثرات پڑیں گے؟ ایسے بیانات سے تو برطانیہ اور ان کی ایجنسیوں کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔
’ یہ کون ہوتا ہے کہ ہمارا حساب لے، خود حساب دے‘
ابھی میں اس کا حساب لے رہا ہوں کہ کیسے جعلی حکمران بن کر بیٹھا ہے، ابھی تو وہ میرے احتساب کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کون ہوتا ہے کہ ہمارا حساب لے، خود حساب دے کس ناجائز طریقے سے آیا ہے؟ صفائی پیش کرے۔
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ایک جعلی حکمران مجھ پر مسلط ہے اور میرے احتساب کی باتیں کرتا ہے، نیب کا کوئی نہ اتا ہے نہ پتا یہ باتیں پہلی بھی اڑیں کہ مجھے نوٹس دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیا پر خبر چلانا اور مجھ تک نوٹس نہ آنا اس کا بھی ہمیں نوٹس لینا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اسی نیب کے خلاف فیصلہ دیا ہے کہ سیاستدانوں کو بدنام کر رہا ہے، نیب کی جانبداری تو عدالت کی سطح پر بھی ختم ہوچکی ہے۔
مولانا کا کہنا تھا کہ میرے اردگرد کے لوگوں کو نیب کے نوٹس آرہے ہیں اور فضول آرہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایک شخص جس کو مشرف اور اس کے بعد کتنی حکومتیں گزریں کوئی ایک کیس نہیں لاسکا، 1988 سے اسمبلیوں میں ہوں اور آج تک اسلام آباد میں میری جھونپڑی تک نہیں، لیکن یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد میں فلاں سیکٹر میں میرے دو بنگلے ہیں پلاٹس ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے اوپر لگے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر چک شہزاد میں 3 ارب کے پلاٹ بیچے یا خریدے ہیں تو پھر پورا چک شہزاد میرا ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی زمانے میں کہا گیا دبئی میں میرا ہوٹل ہے، کہا گیا میں نے پرمٹ لیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب میں بے گھر ہوں کوئی نہیں پوچھتا، میرے دوستوں کا خریدا ہوا مکان ہے کہ میرے سر پر چھت تو ہونی چاہیے۔
نیب نوٹس پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ اگر نیب کا نوٹس آیا تو دو پہلوؤں سے جائزہ لینا ہے، ایک سیاسی پہلو جس پر جماعت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ جانا ہے یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ حملہ شاید مجھ پر نہیں، کارکن اور جماعت سمجھتی ہے کہ یہ حملہ جے یو آئی پر ہے، پھر ایک فضل الرحمٰن نہیں پوری جماعت نیب کے دفتر میں پیش ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ کارکن مجھ پر اعتماد کرتے ہیں آج تک کسی سطح پر کوئی شکایت نہیں آئی ہے، میرے کارکن میرے گھر اور میری زندگی کو جانتے ہیں۔
’مولانا شیرانی کو ساری عمر برداشت کرتا رہا‘
مولانا شیرانی کے بیان پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اپنی ذات کے حوالے سے مولانا شیرانی کو ساری عمر برداشت کرتا رہا ہوں، وہ میرے بزرگ ہیں ان کا احترام کرتا رہا ہوں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اگر جماعت کے نظریات سے ہٹ جائیں اور جماعت عمران خان کے مدِمقابل محاذ پر ہو اور اس وقت آپ حکومت کی حمایت میں بات کریں تو پھر اس کا نوٹس جماعت لے رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مولانا شیرانی کے بیان سے متعلق جماعت نوٹس لے رہی ہے اور کمیٹی بن چکی ہے، اجلاس بلائے جاچکے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پوری دنیا میں مولانا شیرانی کے بیان سے متعلق تشویش پیدا ہوئی ہے، جماعت کی الیکشن میں تو مولانا شیرانی خود موجود تھے۔
انھوں نے بتایا کہ میرا انتخاب تو بِلامقابلہ ہوا، نہ مولانا شیرانی صاحب نے اور نہ کسی اور نے اپنا نام پیش کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ صوبائی انتخاب مولانا شیرانی نے خود لڑا، جماعت کے انتخابی عمل میں شریک رہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ان کی مرضی کے مطابق رکن سازی ہو، ادارے بنے اور ووٹ پڑیں تو یہ تو جماعتوں میں نہیں ہوتا، جے یو آئی کا ایک آزاد، نظمی انتخاب ہے اور خود مختار ناظم انتخاب ہوا کرتا ہے۔
’ہم نے ضیاء الحق کے خلاف جنگ شروع کی‘
سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ جو کچھ آج نظر آرہا ہے اس کی کچھ اطلاعات میرے پاس تھیں، 1970 سے پہلے بھی جمعیت کو تقسیم کیا گیا پھر اس کے بعد بھی اختلافات پیدا کیے گئے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے جنرل ضیا کی آمریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ضیاء کے دور میں بھی میں جمہوریت کی بات کر رہا تھا اور میں مارشل لاء کے خلاف تھا، ایک آمر کو کیسے مانتا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے ضیاء الحق کے خلاف جنگ شروع کی، 5 سال جیل آتا جاتا رہا ہوں، ضیاء الحق کے زمانے میں اپنی زندگی کی طویل جیل گزاری لیکن آمریت کو تسلیم نہیں کیا۔
’تحریک کا آغاز 26 جولائی 2018 کو ہوچکا تھا‘
موجودہ حکومت کے خلاف اپنی تحریک سے متعلق انھوں نے کہا کہ ہماری تحریک کا آغاز 26 جولائی 2018 کو ہوچکا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا متفقہ موقف تھا کہ 25 جولائی کو دھاندلی ہوئی ہے، ایک تسلسل کے ساتھ اب تک ہم آگے آرہے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ تحریک اپنے سفر کے دوران نیشب و فراز کا شکار ہوتی رہتی ہے۔