سندھ میں یوں تو امن و امان کی صورتحال کے بارے میں حکومتی دعوے اور امن و امان سے متعلق کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کے بیانات الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کی اکثر زینت بنتے رہتے ہیں لیکن اس کے برعکس سندھ کے تمام ہی اضلاع میں پولیس کی جانب سے بھرپور کوششوں ،آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کی جانب سے قانون شکنوں کے خلاف پولیس کو فری ہینڈ دینے کے باوجود امن و امان کی صورتحال بگاڑنے والے عناصر اکی سرگرمیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔
اس سلسلے میں پولیس کی جانب سے یہ استدلال بھی سامنے آتا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کے مقابلے میں پولیس کے پاس اس طرح کے خودکار اور جدید ہتھیار نہیں ہیں جس سے قانون شکنوں سے نمٹا جاسکے۔ اس سلسلے میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ دنوں میرٹ پر بھرتی ہونے والے اے ایس پیز کو آفر آرڈر دینے کی تقریب میں آئی جی سندھ مشتاق مہر سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ وہ سندھ پولیس کو جدید ہتھیاروں سے لیس کریں گے تاکہصوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے تاہم حکومت سندھ کے دعوے اپنی جگہ لیکن ضلع شہید بینظیر آباد میں حالیہ دنوں تواتر سے ہونے والے قانون شکنی کے واقعات نے پولیس کی پول کھول دی ہے۔ اس سلسلے میں سندھ کی اہم شخصیت اورسابق وزیر قانون ضیاء الحسن لنجار کے قاضی احمد روڈ اسٹیڈیم کے سامنے واقع بنگلے پر چھ مسلح افراد نے رات کے ساڑھے دس بجے مبینہ طور پر کلاشنکوف سے فائرنگ کی ۔
پولیس کے مطابق فائرنگ کی آواز سن کر پولیس موبائل جو اطراف میں ہی گشت کررہی تھی فائر کی آواز کی سمت آئی توپولیس نے روشنی میں دیکھا کہ چھ افراد جنہوں نے اپنے منہ ڈھانپنے کی زحمت بھی نہیں کی تھی بنگلے پر کلاشنکوف کے ذریعے فائرنگ کررہے تھے اور بلند آواز سے للکار رہے تھے کہ ضیاء الحسن لنجار باہر نکلو ہم تجھے قتل کردیں گے اور تیرے بنگلے کو منہدم کردیں گے۔ پولیس کی ٹیم نے روشنی میں ان حملہ آوروں کو ذوالفقار زرداری، زاہد زرداری اور ضمیر زرداری جوسگے بھائی اور غلام رسول شاہ کالونی کے رہائشی ہیں جبکہ ان کا چوتھا ساتھی شیر خان زرداری کوبھی پہچان لیا جبکہ مزید افراد جو نامعلوم ہیں ، انہیں دیکھ کر شناخت کیا جاسکتا ہے وہ بھی مسلح تھے ۔ پولیس نے انہیں للکار کر فائرنگ کرنے سے منع کیا تو ذوالفقار زرداری نے پولیس ٹیم پر بھی فائرنگ کی جو پولیس موبائل پر لگی۔
مسلح افراد فائرنگ کرتے ہوئے علاقے کی تنگ گلیوں کا فائدہ اٹھا کر موقع واردات سے فرار ہوگئے ۔ پولیس نے ان کا پیچھا کیا اور ان تمام ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ۔ملزمان کے خلا ف سرکار کی مدعیت میں اے سیکشن پولیس اسٹیشن نواب شاہ میں 506;47;2-504-147-148-149 اور 337;72;ii سمیت 427-353-324;808067; اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 6;47;7 کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔ مسلح افراد اپنے ہمراہ ٹریکٹر بھی لائے تھے جس پر وہ سوار تھے پولیس نے اسے بھی اپنی تحویل میں لے لیا ۔ضیاء الحسن لنجار کے بنگلے پر حملہ کی خبر نواب شاہ شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سینکڑوں افراد وہاں جمع ہوگئے۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد تنویر حسین تنیو نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ پولیس نے تمام گرفتار ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کرکے ان کا سات دن کا ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔ ا ضیاء الحسن لنجار جو سندھ بار کونسل کے ممبر بھی ہیں ،ان کے گھر پر حملے کی خبر ملنے پر سندھ کی وکلاء برادری میں بے چینی پھیل گئی اور وکلا ء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کردیا ۔ ایک احتجاجی ریلی ڈسڑکٹ بار کونسل سے نکالی گئی جس میں وکلاء برادری نے ضیاء الحسن لنجار کے گھر پر حملے کی شدید مذمت کی جبکہ اس موقع پر ایڈوکیٹ رضوان میمن نے اپنا کوٹ نذر آتش کیا ۔
ایڈوکیٹ ضیاء الحسن لنجار کے بنگلے پر حملہ کے واقعے کے بعد نواب شاہ میں خوف وہراس کی فضا پھیلگیاہے ۔ واضح رہے کہ اس سے قبل شہر کے گنجان آباد محلے منوآباد میں چار مسلح موٹر سائیکل سواروں نے نجی چائے کمپنی کے ڈیلرزاہد ملک سے اسلحہ کے زور پر تین لاکھ دس ہزار روپے لوٹ لئے جبکہ مارکیٹ روڈ پر ایک کھاد ڈیلر نعیم میمن سے تین افراد نے آٹھ لاکھ روپے نقدی لوٹی اور با آسانی فرار ہوگئے جبکہ سکرنڈ میں ایڈوکیٹ علی حیدر شاہ کے مکان پر بھی مسلح افراد نے فائرنگ کی اور پولیس نے واقعہ کی ایف آئی آر کا اندراج انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کیا تھا ۔ ملزمان کی عدم گرفتاری پر وکلاء برادری نے سکرنڈ پولیس اسٹیشن کے باہر دھرنا دے کران کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا ۔ تاہم کوئی بھی ملزم گرفتار نہیں ہو سکا ۔