بیجنگ: سن یو
آسٹریلوی کوئلے پر پابندی سے بجلی کی قلت میں مزید ابتری کے بعد اسٹریٹ لائٹس سے لے کر لفٹ تک ہر چیز کے متاثر ہونے سے چین بھر کی فیکٹریاں خاموش ہورہی ہیں اور دفتری ملازمین کو اونچی عمارتوں کی سیڑھیاں چڑھنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں چین کےدرجن بھر سے زائد شہروں نے بجلی کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے کیونکہ کورنا وائرس کے بعد معاشی بحالی کے لئے توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو تھرمل کول کی کمی کا سامنا ہے۔یہ قلت معیشت کی ضروریات کے ساتھ بین الاقوامی سفارت کاری کے لئے مستحکم رسائی کو متوازن کرنے میں چینی حکام کے تذبذب سے دوچار ہونے کو نمایاں کرتی ہے۔
چین کے توانائی اور صنعتی گرپوں نے کہا ہے کہ مسئلہ جزوی طور پر آسٹریلوی کوئلے پر عائد پابندی کی وجہ سے ہے، جس پر ملک کے متعدد بجلی گھروں کا انحصار ہے،جیسا کہ چین اور آسٹریلیا کے مابین کشیدگی ہے۔
چین کے سب سے بڑے توانائی کے گروپس میں سے ایک ہوڈیان کارپوریشن کے ایک ڈائریکٹر نے کہا کہ درآمدات پر پابندی صنعتی منظرنامے کو تبدیل کرنے کے لئے کافی ہے۔متعدد مقامی بجلی گھروں کی اعلیٰ پیداوار کا انحصار آسٹریلوی کوئلے پر ہے اور اب انہیں متبادل تلاش کرنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
چین کی معیشت میں گزشتہ چند ماہ میں صحت مندی لوٹنے میںتیزی آنے کے بعد یہ مسئلہ شدید تر ہوگیا ہے۔
عوامی اعلانات کے مطابق چین کے کم از کم چار صوبوں میں حکام نے مقامی افراد اور کاروباری اداروں کو بجلی کی کھپت میں کمی لانے کا کہا ہے۔
چین کے وسطی صوبے ہنان میں حکام نے رواں ماہ اعلان کیا تھا کہ سرکاری ادارے اپنا بجلی کا استعمال کم کردیں گے اور بجلی کی فراہمی میں کمی سے نمٹنے کے لئے صوبے بھر کی آدھی اسٹریٹ لائٹس رات کے وقت بند کردیں گے۔
صوبائی دارالحکومت چانگشا میں گزشتہ ہفتے درجنوں بلند وبالا عمارتوں نے اپنی لفٹوں کو بجلی کی فراہمی بند کردی، جس کی وجہ سے ملازمین کو اپنے دفاتر تک جانے کے لئے 20 منزلہ سیڑھیاں چڑھنے پر مجبور کردیا۔
موضوع کی حساسیت کے باعث اپنا نام افشا نہ کرنے کی شرط پر چانگشا میں قائم دفتر کے ایک ملازم نے کہا کہ اس سے قبل مجھے دفتر پہنچنے میں کبھی اتنی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا تھا، بجلی کی قلت کی وجہ سے وہ گزشتہ ہفتے 40 منٹ تک لفٹ میں پھنسا رہا تھا۔
جھنڈے اور بیجز جیسی مصنوعات کی پیداوار کے حوالے سے معروف مشرقی چین کاشہر ییوؤ نہ صرف شام کے وقت اپنی تمام اسٹریٹ لائٹس بند کردیتا ہے بلکہ فیکٹریوں کو رواں سال کے آخر تک اوقات کار میں 80 فیصد تک کمی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
ییوؤ میں پلاسٹک کے پھول بنانے والی فیکٹری کے مالک مائک لی نے کہا کہ جب ہم عام فیکٹری میں ہفتے میں صرف دو دن کام کرسکتے ہیں اور رات کے وقت گلیوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نارمل زندگی نہیں نہیں گزار رہے ہیں۔
چینی حکام نےان مسائل کا ذمہ دار ملک کے کچھ حصوں میں غیر معمولی سردی کے موسم اور توانائی کی بہت زیادہ طلب کے اتفاق کو قرار دیا ہے۔
تاہم، بجلی گھروں نے بتایا کہ ان کے آپریشن آسٹریلوی کوئلے کی درآمد معطل ہونے کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ چینی پاور پلانٹس نے گزشتہ سال آسٹریلیا سے تقریباََ 3 فیصد اپنا تھرمل کول حاصل کیا تھا۔چائنہ بجلی کونسل کے تجارتی ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ آسٹریلوی کوئلے کے اعلیٰ معیار کی جانب راغب ذیادہ ترقی یافتہ صوبوں میں تناسب 10 فیصد سے تجاوز کرسکتا ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ درآمدی پابندی اقتصادی حوالے سے سمجھ نہیں آتی۔
ماحولیاتی قوائد و ضوابط کو سخت کرنے کی وجہ سے چین کی کوئلے کی کانیں بھی اس قلت کو پورا کرنے کی سخت کوشش کررہی ہیں۔سرکاری اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ نومبر میں چین کے کوئلے کی پیداوار میں سالانہ 1.5 فیصد اضافہ کے مقابلے میں اسی عرصے میں تھرمل بجلی کی پیداوار میں 6.6 فیصد اضافہ ہوا۔
سن سیئرز کنسلٹنسی کے مطابق اس مجموعے نے توانائی کی فراہمی کو متاثر کیا ہے اور قیمتوں میں بھی بے حد اضافہ کردیا ہے۔ چین کی اجناس کی ایک بڑی بندرگاہ کینگھوانگداؤ میں مال تجارت کی فہرست میں تھرمل کوئلہ دو سال کی کم ترین سطح پر ہے، جبکہ مئی سے قیمتیں دو تہائی بڑھ گئی ہیں۔
جس نے متعدد پاور پلانٹس کو پیداوار میں کٹوتی کرنے پر مجبور کردیا ہے، تاہم آسٹریلیا اور چین کے مابین تعلقات کی انتہائی خراب صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ کو جلد ہی مسئلے کے کسی حل کی توقع نہیں ہے۔
حیدان کارپوریشن کے عہدیدار نے کہا کہ ہمیں توقع نہیں ہے کہ حکومت صرف اس پریشانی کی وجہ سے ہی درآمدی کنٹرول میں نرمی لائے گی۔ سیاست پہلے آتی ہے۔