اسلام آباد(انصار عباسی) ایک ایسے موقع پر جب سپریم کورٹ نے نیب کی عدالتوں میں ٹرائل میں ہونے والی تاخیر اور جس وقت نیب کی مزید عدالتوں کے قیام کا سلسلہ جاری ہے۔
نیب کی حراست میں موجود افراد نے چیف جسٹس پاکستان کو درخواست دیتے ہوئے ان کی توجہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کا فیصلہ سنانے میں تاخیر کی طرف مبذول کرائی ہے۔
کیمپ جیل لاہور میں نیب کی حراست میں قید تقریباً 50قیدیوں نے حال ہی میں چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ نیب کی حراست میں موجود قیدیوں کے ٹرائل میں انصاف کیا جائے۔
خط میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ضمانت پر رہائی شخصی آزادی کا معاملہ ہے اور شاید یہ بات ژندہ رہنے کے حق کے بعد دوسری اہم بات ہے۔
ارجنٹ معاملہ ہونے کے باوجود درخواست ضمانت کا فیصلہ سنانے میں اوسطاً 6 ماہ یا پھر ایک سال لگتا ہے۔
خط میں لکھا ہے کہ شخصی آزادی سے جڑے معاملے میں اس قدر تاخیر ناقابل جواز ہے۔
خط کے مطابق، احتساب عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف رٹ پٹیشن یا اپیلیں مہینوں یا برسوں تک شہر التواء رہتی ہیں جبکہ ان پٹیشنز کا اثر براہ راست ان ٹرائلز پر ہوتا ہے جن میں احتساب عدالت کی کارروائی یا پھر فیصلوں پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود، اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں زیر التواء رہتی ہیں اور احتساب عدالتوں میں کیس چلتا رہتا ہے اور ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا جس سے ملزم کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے۔
مزید برآں، خط میں لکھا ہے، حتمی فیصلے کیخلاف اپیل کا فیصلہ آنے میں بھی برسوں لگ جاتے ہیں جس سے غلط انداز سے مجرم قرار دیے گئے شخص کی شخصی آزادی ایک اہم عرصہ تک متاثر رہتی ہے۔
خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ احتساب عدالتوں کے 70 فیصد فیصلے اعلیٰ عدالتیں کالعدم قرار دے دیتی ہیں۔
خط میں تجویز دی گئی ہے کہ صورتحال کے ازالے کیلئے حکمت عملی مرتب کی جائے اور لاہور ہائی کورٹ کی مثال دیکھی جائے۔ فی الوقت، نیب کے تمام معاملات ایک واحد نوٹیفائیڈ بینچ کے روبرو پیش کیے جاتے ہیں جو دو ججز پر مشتمل (ڈی بی) ہوتا ہے۔
یہ بینچ ہفتے میں چار دن روزانہ دو گھنٹے کیلئے سماعت کرتا ہے اور ہفتے میں کل 8 گھنٹے کام کرتا ہے۔
تجویز یہ ہے کہ نیب کی اپیلوں کیلئے دو بینچ تشکیل دیے جائیں اور انہی میں نیب عدالتوں کے حتمی آرڈرز کیخلاف اپیلوں کی سماعت کا اختیار دیا جائے۔
دیگر تمام پٹیشنز بشمول ضمانت کی درخواستیں ہائی کورٹس کے دیگر دستیاب سنگل بینچ کیلئے ہونا چاہئیں، جیسا کہ فوجداری مقدمات میں ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ضمانت اور رٹ پٹیشنز کے کیسز دو بینچوں پر مشتمل ججز سنیں۔
دو ججز پر مشتمل بینچ کو نیب کے کیسز فکس کرنے کی وجہ سے مقدمات کی لمبی فہرست جمع ہوگئی ہے جس سے نیب کی حراست میں موجود افراد کو نقصان ہوتا ہے۔
خط میں ایک درخواست گزار نجم الثاقب کی مثال پیش کی گئی ہے جسے 2018 میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔
ملزم نے جون 2018 میں اپیل دائر کی جو اب ڈھائی سال سے زہر التواء ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق، سزا میں کٹوتی کے بعد بھی دیکھیں تو اس کی پانچ سال کی سزا پوری ہونے میں اب باقی 7 سے 8 ماہ باقی رہ گئے ہیں۔
اس خط کی نقل پاکستان بار کونسل اور تمام ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کو بھی ارسال کی گئی ہے۔