کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیونیوزکے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں میزبان نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ مسلسل غلط فیصلے کیے جارہے ہیں اور پھر ان کے دفاع میں غلط بیانی کی جارہی ہے، اعداد و شمار کی ہیرپھیر کی جارہی اور بیانات بدلے جارہے ہیں
جیو نیوز کے ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر سے مہنگی ایل این جی خریدنے پر سوالات ہوئے تو انہوں نے کہا کہ مہنگی ایل این جی خریدنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں اور پھر کابینہ کو حقائق سے ہٹ کر اعداد و شمار بتائے گئے
وزارت پیٹرولیم نے اپنی غلطی چھپانے کے لیے اعدادوشمارمیں ہیر پھیر شروع کردی۔گزشتہ سال کےریٹس کوکم دکھانے کےلیے اوررواں سال کے ریٹس کوکم دکھانے کے لیے ن لیگ کے طویل مدتی معاہدوں کے ریٹس کو بھی شامل کرلیا۔
حالاں کہ پورا سال باربار دونوں کو الگ الگ دکھا کربتاتے تھےکہ ہم طویل مدتی معاہدوں سے سستی ایل این جی لے رہے ہیں کیوں کہ دسمبر 2019 میں حکومت کواسپاٹ کارگوپر 10.7 فی صد اوسط ریٹ پر ایل این جی ملی۔جب تیل کی قیمت 62ڈالرز تھی۔
یعنی 6.6ڈالرز کی ایل این جی ملی اور اس وقت حکومت بتاتی رہی تھی کہ دیکھیے ن لیگ کے طویل مدتی معاہدے 13فی صد کے پڑرہے ہیں۔مگر ہم نے اسپاٹ پر سستی ایل این جی لے لی۔
اور پھر جب ان سردیوں میں دسمبر کے لیے ساڑھے 17 فی صد کا ریٹ ملااور گزشتہ برس تیل کی اوسط قیمت 62 ڈالرز ہونے کے باوجود 6.6 ڈالرز کے مقابلے میں اس سال کے 45 ڈالرز کی تیل کی اوسط پرساڑھے 7ڈالرز کااسپاٹ ریٹ ملاتو وزارت پیٹرولیم نے اپنے ہی گزشتہ برس کورواں برس سے زیادہ دکھانے کے لیےطویل مدتی معاہدوں کوشامل کردیا کہ دسمبر 2019میں 7.8ڈالر کی ایل این جی لی تھی
مگر اس سال 6.34 ڈالر کی ایل این جی لی ہے یعنی گزشتہ برس سے طویل مدتی معاہدوں پر اسپاٹ قیمتوں سے مہنگا ہونے پر تنقید کررہے تھےاور دونوں کو الگ الگ بتارہے تھے،اور اس سال دسمبر میں اسپاٹ پر مہنگی ایل این جی ملی ہے تو طویل مدتی معاہدوں کو ملا کر موازنہ کررہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ سردیوں کی قیمتوں کا طویل مدتی معاہدوں سے موازنہ کرنا بڑی غیر معقول بات ہے۔
اس کے علاوہ وزارت پیٹرولیم نے اپنی ٹویٹس میں لکھا کہ ایل این جی کی اسپاٹ قیمت پر خریداری اسوقت ہی کی جاسکتی ہے،جب ڈیمانڈ پتا ہومگر سردیوں میں ڈیمانڈ تین گناہوگی،اور ندیم بابر نے یہ بات اپنی پریس کانفرنس میں تسلیم بھی کی۔
اس کے علاوہ ندیم بابر نے مان لیا کہ کراچی میں 17کلومیٹر کی پائپ لائن بن گئی ہےمگر پھر پیپلزپارٹی پر الزام لگادیا۔مگر اب سے کچھ دن پہلے 30نومبر کو ندیم بابر نے کہا تھا کہ اس پائپ لائن کو دسمبر میں مکمل ہونا ہےاور دسمبر میں 1200 ایم ایم سی ایف ڈی اور جنوری میں 1400 ایم ایم سی ایف ڈی گیس لائیں گے۔کیوں کہ یہ پائپ لائن مکمل ہوجائے گی مگر آج کہہ دیا کہ پائپ لائن پہلے مکمل ہوجاتی توجنوری میں زیادہ گیس لے آتے۔
مگر جنوری میں تو جو اس پائپ لائن کے علاوہ 1200 ایم ایم سی ایف ڈی لاسکتے تھے، اس کے بھی سپلائر نہیں آئے تھےکیوں کہ ٹینڈر دیر سے کیا۔ٹینڈر تو حکومت نے 8 طویل مدتی معاہدوں کے علاوہ 6کارگو کا ہی کیا تھا،پھر جنوری کے شروع کے 20 دن کے لیے بڈز ہی نہیں آئی کیوں کہ ٹینڈر بہت دیر سے کیا۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت میڈیا پر ذمے داری ڈال دی تھی اورکہا کہ میڈیا کے ایک حصے کی وجہ سےحالیہ ٹینڈر میں سپلائر نہیں آئے۔اس وقت سوال اٹھا کہ پھرجنوری کے آخری 10دن کے لیے کیسے آگئے۔مگر پھر دوبارہ ایمرجنسی ٹینڈر کیا تو سپلائرز آگئے۔مگر 44فی صد تک کا مہنگا ریٹ ملا۔اور پھر کہہ دیا کہ ہم نےتو بہتر قیمت کے لیے ٹینڈر کیے تھے۔
ہمیں 14کارگو لینے ہی نہیں تھے۔گنجائش ہی 12کارگو کی ہے۔یعنی 30نومبر کو کہا کہ پائپ لائن دسمبرمیں بن جائے گی۔تو جنوری میں 14کارگو آئیں گے،ٹینڈر جاری کردیا۔پھر سپلائرنہیں آئے تو میڈیا پر ذمے داری ڈال دی۔پھر ایمرجنسی ٹینڈر کیا،سپلائرزآگئے مگر مہنگا ریٹ دیا۔تو کہا کہ ہمیں تو لینا ہی نہیں تھا۔
ایسے ہی بہتر قیمت کے لیے ٹینڈر کیا۔پھر آج مان لیا کہ جو پائپ لائن ان کے اپنے بیان کے مطابق،دسمبر میں بننی تھی، وہ بن گئی تھی۔مگر جلدی بن جاتی توجنوری اور فروری میں زیادہ ایل این جی منگوالیتے۔
حالاں کہ جنوری میں پہلے سپلائر نہ آئےاور پھر مہنگا ٹینڈر آنے کی وجہ سے 19دسمبر کو وزارت پیٹرولیم نےٹویٹ کیاتھا کہ 30دسمبر کا ایک کارگوجنوری میں شفٹ کردیا گیاہے۔اور آج 10 دن کے بعد 29دسمبر کوندیم بابر صاحب نے کہاکہ اگر پائپ لائن سندھ حکومت جلدی بنالیتی تو جنوری اور فروری کے لیے زیادہ کارگو منگوالیتے۔مگر فروری کے لیےوزارت پیٹرولیم نے ٹینڈر ہی دو کارگو کا کیا۔