کراچی(اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ بھر میں تمام سرکاری اراضی واگزار کرانے کا حکم دیتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔
عدالت عظمیٰ نے صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو زمینوں پر قبضہ کیخلاف فوری کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے سرکاری اراضی پر قبضوں کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے کتنے پلاٹس، پارکس، سرکاری اراضی واگزار کرائی گئی،عدالت ، سپر ہائی وے، یونیورسٹی روڈ اور ملیرسب غیر قانونی تعمیرات سے بھراپڑا ہے،شہر کے شہر آباد ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل 3 رکنی بینچ کے روبرو زمینوں کے ریکارڈ میں جعلسازی سے متعلق کیس کی سماعت بدھ کو ہوئی۔عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کتنے رفاعی پلاٹس، پارکس، سرکاری اراضی واگزار کرائی گئی؟
سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے بتایا کہ ہم 7 کروڑ فائلوں کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ متوازی فائلیں بھی چل رہی ہیں روز جعلسازی سامنے آتی ہے۔
مختیار کار اپنے دفتر اور گھر میں ریکارڈ بناتے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے ٹھٹہ میں تو بہت گڑبڑ ہے ہر ایک نے وہاں مرضی سے ریکارڈ بنایا ہے۔
سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو قاضی شاہد پرویز نے کہا کہ ٹریکنگ کوڈ کے زریعے 1985 تک ریکارڈ آن لائن دیکھا جاسکتا ہے، کمپیوٹرائزیشن کے دوران 2 لاکھ 45 ہزار ریکارڈ جعلی نکلا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سپر ہائی وے پر چلے جائیں آپ کو قبضہ نظر آجائے گا کتنی زمینوں پر قبضہ ہے، سرکاری زمینوں پر غیر قانونی تعمیرات بھری پڑی ہیں، پورے کا پورا شہر آباد ہورہا ہے، یونیورسٹی روڈ پر آگے جائیں سب غیر قانونی تعمیرات سے بھرا پڑا ہے۔
ملیر جائیں دیکھیں غیر قانونی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں، ایک نہیں درجنوں 15، 15 منزلہ عمارتیں سرکاری زمینوں پر بن گئی ہیں۔عدالت نے استفسار کیا آپ کتنےعرصہ سے ممبر ہیں؟
آپ کچھ کرکے دکھائیں، بتائیں کتنی سرکاری زمینیں واگزار کرائی ہیں، آپ کو حکم کی ضرورت نہیں یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ سینئر ممبر بورڈ آف ریوینیو نے کہا کہ ملیر میں حال ہی میں ایک ہزار ایکڑ اراضی واگزار کرائی گئی ہے۔