عالم گیر وباکووِڈ19 کی وجہ سے نہ صرف معیشت، معاشرت، تعلیم، بلکہ کھیلوں پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتّب ہوئے۔دنیا بھرمیں کھیلوں کے چھوٹے بڑے تقریباً تمام ہی ایونٹس ملتوی یا منسوخ کردئیے گئے۔ سالِ رفتہ کھیلوں کا سب سے بڑامیلہ ، ’’ٹوکیو اولمپکس ‘‘ 24 جولائی سے 9 اگست تک جاپان میں منعقد ہوناتھا، لیکن کورونا وبا کے باعث مارچ 2020ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اب ’’ٹوکیو اولمپکس‘‘کاآغاز 23جولائی 2021ءسےہوگا، یاد رہے کہ اولمپک گیمز تاریخ میں پہلی بار ملتوی ہوئے ہیں کہ عالمی جنگ کی وجہ سے مقابلے منسوخ توکیے گئے تھے، مگرالتوا پہلی بار ہوا ۔بظاہر تو مقابلوں کا التوا آسان نظر آتا ہے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں کہ 2020ء میں اولمپکس کے انعقاد کے لیے 3.67بلین ڈالرز سے زیادہ کا بجٹ مختص کیا گیا تھا۔ کھیلوں کے لیے نئے اسٹیڈیمز، اولمپک ویلیجز تعمیر ہوئے، تودو مختلف ایئرپورٹس سے ٹوکیو اسٹیشن تک کے لیے ریلوے ٹریکس کا جال بھی بچھایا گیا،تا کہ ٹیمز اور شائقین کی آمد و رفت آسان اور کم وقت میں ممکن ہو سکے۔
پاکستان میں کھیلوں کی بات کی جائے تو عموماً شائقین کرکٹ ہی پسند کرتے ہیں۔2020ء کا آغاز پاکستان میں کرکٹ کے حوالے سے اچھا رہا کہ ’’پاکستان سُپر لیگ‘‘ کےپانچویںایڈیشن کا پہلی بارمکمل طور پرانعقاد مُلک ہی میں ہوا۔ 6ٹیمز کے ایونٹس کی میزبانی کراچی، لاہور، ملتان اور راول پنڈی کے حصّے میں آئی۔ 20فروری 2020ء سے شروع ہونے والے ٹورنامنٹ میں 34میچز کھیلے گئےاور ’’کراچی کنگز ‘‘پی ایس ایل5کی فاتح قرار پائی۔ واضح رہے، سال کے آغاز میں شروع ہونے والی لیگ کے تمام میچز بہترین انداز سے جاری تھے۔ نیشنل اسٹیڈیم ،کراچی میں 12، قذافی اسٹیڈیم ،لاہور میں 11، راول پنڈی اسٹیڈیم میں 8 اور ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں 3میچز رکھے گئے۔ ابتدائی میچزکا سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ کورونا کے باعث پہلے تو انتظامیہ نے اسٹیڈیم میں شائقین کا داخلہ بند کیا، کوالیفائنگ اور ایلیمنٹری میچز ختم کر کے سیمی فائنلز کروانےکا اعلان کیا، میچز میں وقفہ ختم کر دیاگیااور پھربقیہ میچز ہی ملتوی ہو گئے۔
ابتدا میں مینجمنٹ کی جانب سے ملتوی شدہ میچز کو ری شیڈول کرنے کاکوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ بعد ازاں،صورتِ حال بہتر ہونے پر 14، 15اور 17نومبر 2020ء کو بقیہ چار میچز لاہور میں کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ شومئی قسمت،وہاںاسموگ اور موسم نے اجازت نہ دی، جس کی وجہ سے تمام میچز کراچی منتقل کر دیئے گئے۔پہلے کوالیفائنگ راؤنڈ میں کراچی کنگز نے ’’ملتان سلطان ‘‘کو سُپر اوور میں شکست دے کر فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا، تو دوسری جانب ’’لاہور قلندرز‘‘ نے ’’پشاور زلمی‘‘ کو شکست دے کر ایونٹ سے باہر کر دیا۔
دوسرے کوالیفائر میں لاہور اور ملتان کا مقابلہ ہوا اورلاہور نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی بار فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ 17نومبر کو نیشنل اسٹیڈیم ، کراچی میں دو روایتی حریفوں، کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کے درمیان مقابلے میں لاہور کے بیٹسمین بڑا اسکور کرنے میں ناکام رہے، ٹیم 7 وکٹس پر 134رنز ہی بنا سکی۔ کراچی کے لیےبابر اعظم کی 63 رنز کی دل کش اننگز نے نہ صرف ہدف آسان بنا دیا، بلکہ کراچی کنگز کو 5 وکٹ کی فتح کے ساتھ پی ایس ایل فائیو کا چیمپئن بھی بنا دیا۔ بدقسمتی سے کورونا کے سبب مُلک کااتنا بڑا کرکٹ ٹورنامنٹ بہت روکھے پھیکے انداز میں اختتام پذیر ہوا۔
بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی کار کر دگی کی بات کی جائےتوسالِ گزشتہ قومی کرکٹ ٹیم نے بنگلا دیش، انگلینڈ، زمبابوے اور نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کھیلیں ، جب کہ کورونا کے باعث نیدرلینڈ اور آئرلینڈ کے ساتھ کھیلے جانے والے وَن ڈے میچز کی سیریز منسوخ کر دی گئی۔ ویسے تو بنگلا دیش سے بھی دو ٹیسٹ سیریز ہونی تھیں، جو تا حال التوا ہی کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ بنگلا دیشی ٹیم نےدو مراحل میں پاکستان کا دَورہ کیا، پہلے جنوری میں آئی ،جس میں 3ٹی ٹوینٹی میچز کھیلے، جن میں پاکستان نے دو صفر سے کام یابی حاصل کی۔ پھر فروری میں ٹیسٹ میچ کے لیے دوبارہ پاکستان آئی ، جس میںپاکستان نے ایک اننگز اور 44رنز سے کام یابی حاصل کی، لیکن بعد ازاں کورونا کے باعث سیریز کا دوسرا ٹیسٹ نہ ہو سکا۔ان تمام میچز کی میزبانی راول پنڈی نے کی۔
اگست میں پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کا دَورہ کیا، جس میں قومی ٹیم کی کار کر دگی کچھ خاص نہیں رہی۔ پہلے ٹیسٹ میں ٹیم جیت کے انتہائی قریب پہنچ کر بھی ٹیسٹ ہار گئی۔ شان مسعود کی سینچری کی بدولت پاکستان نے پہلی اننگز میں 326رنز بنائےاور دوسری اننگز میں 169رنز ہی بنا سکی۔ انگلینڈ کی ٹیم پہلی اننگز میں 219رنز پر آئوٹ ہوگئی، اسے جیت کے لیے277رنزدرکارتھے۔دوسری اننگز میں پاکستان نے 117رنز پر آدھی ٹیم پویلین پہنچا دی تھی ،لیکن جوز بٹلر اور کرس ووکس کی بہترین شراکت داری نے آسٹریلوی ٹیم کی فتح میں بنیادی کردار ادا کیا۔دوسرا اور تیسرا ٹیسٹ خراب موسم کے باعث کسی نتیجے کے بغیرختم کر دیا گیا، یوں سیریز ایک صفر سے پاکستان کی شکست پر اختتام پذیر ہوئی۔ بعد ازاں، اظہر علی کی جگہ بابر اعظم کو ٹیسٹ ، ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی کا کپتان بنا دیا گیا۔
اکتوبر میں زمبابوے کی کرکٹ ٹیم نےدورۂ پاکستان کیااور تین ون ڈے اور تین ٹی ٹوینٹی میچز کی سیریز کھیلی۔ آئی سی سی چیمپئن شِپ کے سلسلے کی ون ڈے سیریز کے ابتدائی دو میچز تو پاکستان نے جیت لیے، لیکن تیسرا میچ ٹائی ہوگیا۔ جس کا فیصلہ سپر اوور میں زمبابوے کے حق میں رہا ، مگر سیریز 2-1سے پاکستان کے نام ہوئی۔ ٹی ٹوینٹی سیریز میں پاکستان نے بآسانی 3-0 سے کام یابی حاصل کی۔پاکستان اور زمبابوے کے درمیان دوسرے ایک روزہ میچ میں پاکستانی امپائر علیم ڈار نے سب سے زیادہ، 210ایک روزہ میچز سپروائز کرنے کا عالمی اعزاز اپنے نام کیا،اس سے قبل یہ اعزاز جنوبی افریقا کے روڈی کورٹزن کے پاس تھا۔
تادمِ تحریر پاکستانی ٹیم مجموعی طور پر چار ٹیسٹ میچز کھیل چُکی ہے، جن میں سے 1 جیتا ،1ہارا اور 2 ڈرا ہوگئے۔ انگلینڈ سے سیریز میں شکست ہوئی ۔تین وَن ڈے میچززمبابوبے کے خلاف کھیلے، جن میں سے 1 جیتا ،1 ہارا اور 1 ٹائی ہوگیا ،لیکن ٹائی میچ کا فیصلہ سُپر اوور میں زمبابوے کے حق میں رہا۔ ٹی ٹوینٹی کے اعداد و شمار پاکستان ہی کے حق میں رہے۔ 9 میچز کھیلے،6 جیتے ،ایک میں انگلینڈ سے شکست ہوئی، جب کہ دو بارش کی نذر ہوگئے۔کورونا کے باوجود نہ صرف پاکستان، بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اورویسٹ انڈیز سب ہی ٹیمز مختلف سیریز کھیلتی رہیں۔ البتہ ،کورونا وائرس کے سبب کچھ مشکلات ضرور پیش آئیں، جیسے شائقین کے اسٹیڈیم میں داخلے پرپابندی تھی، کھلاڑیوں کو ایک سے دوسرے مُلک پہنچنے پر قرنطینہ ہونا پڑا، ٹریننگ بھی متاثر ہوئی، مگر کھیلوں کا سلسلہ بحال ہوگیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کاؤنسل کی طرف سے کھلاڑیوں اور کھیل کے متوالوں کے تحفّظ کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے آسٹریلیا میں ہونے والا’’ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ 2020ء‘‘ اور ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ بھی ملتوی کر دیا گیا۔البتہ،آسٹریلیا میں’’ویمن ٹی ٹوینٹی ورلڈکپ ‘‘ کاکام یابی سے انعقاد ہوا،10ٹیمز کے اس ایونٹ میں23میچز کھیلے گئے۔
واضح رہے کہ میگا ایونٹ میں پاکستان ویمن ٹیم نے سابق چیمپئن، ویسٹ انڈیز کو 8 وکٹس سے شکست دےکر شروعات تو اچھی کی تھی، لیکن انگلینڈ سے 42اور جنوبی افریقا سے 17 رنز سے میچز ہارگئی اوربارش کے باعث تھائی لینڈ کے خلاف میچ مکمل ہی نہ ہو سکا۔اس طرح گرین شرٹس 4میں سے صرف 1ہی میچ جیت سکیں۔ ان کے گروپ سے جنوبی افریقا اور انگلینڈ نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا، جب کہ گروپ اے سے بھارت اور آسٹریلیا کی ٹیمز سیمی فائنل میں پہنچیں۔ سیمی فائنل میں بھارت نے انگلینڈ اور آسٹریلیا نے جنوبی افریقا کو شکست دی اور فائنل میں میزبان آسٹریلیا نےبھارتی ٹیم کو شکست دے کر پانچویں مرتبہ یہ ٹائٹل اپنے نام کیا۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن نے سالِ رفتہ کے آغاز میںقومی و بین الاقوامی شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے ملکی سطح پر جونیئر، سینئر اور خواتین کے20ٹورنامنٹس کے انعقاد کا اعلان کیا تھا، مگر وائرس کے سبب پورا شیڈول ہی متاثر ہوگیا اور ڈومیسٹک سطح کے چند ایک ٹورنامنٹس ہی منعقد ہو سکے۔
علاوہ ازیں،پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق اولمپیئن اور لیجنڈ ری کھلاڑی، عبدالرشید جونیئر انتقال کر گئے۔79برس کی عمر میں انتقال کرنے والے قومی ہاکی پلیئر نے 1968ءاور 1972ءکے اولمپکس مقابلوں میں سب سے زیادہ گول کیے تھے۔علاوہ ازیں،کینسر میں مبتلا پاکستان کی پہلی انٹرنیشنل تائیکوانڈو اولمپیئن، ماہم آفتاب بھی انتقال کر گئیں۔’ ’دخترِ وہاڑی‘‘ کے لقب سے پکاری جانے والی 26 سالہ ماہم تائیکوانڈو مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتنے والی پہلی پاکستانی خاتون پلیئرتھیں۔
فٹ بال کی بات کی جائے توارجنٹینا کے سابق کپتان، ڈیاگو میراڈونا اور اٹلی کے سابق کپتان پائولو روسی 2020ء میں اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ میراڈونانے، جنہیں صدی کا بہترین فٹ بالر بھی کہا جاتاہے،1986ء میں میکسیکو میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ میں ارجنٹینا کو دوسری مرتبہ عالمی چیمپئن بنوایاتھا۔ یہ وہی ایونٹ تھا، جس کے کوارٹر فائنل میں انگلینڈ کے خلاف میراڈونا کے دونوں گول تاریخی قرار پائے۔ ایک گول ’’ہینڈ آف گاڈ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جسے صدی کا بھی بہترین گول قرار دیا گیا۔ جس میں میراڈونا نے اپنے ہاف سے گیند لے کر تقریباً آدھی ٹیم کو ڈاج دیتے ہوئے حریف ٹیم کے گول میں پہنچایا تھا۔
اسی طرح پائولو روسی 1982ء میں اٹلی کو عالمی چیمپئن بنوانے والے کھلاڑی ہیں۔پائولو روسی کو 1982ء میں سب سے زیادہ، 6 گول کرنے پر ’’گولڈن بُوٹ ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا جا چُکا ہے، پھر وہ ’’گولڈن بال‘‘ یعنی پلیئر آف دی ٹورنامنٹ بھی قرار پائے۔ وہ ایک ورلڈ کپ کے تینوں اعزاز حاصل کرنے والے دُنیا کے تین فٹ بالرز میں سے ایک ہیں۔ فٹ بال کی سرگرمیاں کووِڈ19 کی وجہ سے تعطّل کا شکار رہیں اور جب بحال ہوئیں تو بھی تماشائیوں کو اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت نہ مل سکی۔
برطانیہ کے مقبول اور قدیم ٹورنامنٹ’’ FA Cup ‘‘کا فائنل، جو 23مئی کو ہونا تھا، کورونا کے باعث یکم اگست کو لندن میں کھیلا گیا ۔ جس میں 139ویں ایڈیشن کے فائنل میں آرسنل نے چیلسی کو ایک کے مقابلے میں دو گول سے ہرا کر فائنل اپنے نام کیا۔اسی طرح ’’یوئفا چیمپیئنز لیگ‘‘ کے 65 ویں ایڈیشن کا فائنل بھی 23 اگست کو جرمن کلب، بائرن میونخ اور فرانس کے پیرس سینٹ جرمین کے درمیان، لزبن میں کھیلا گیا۔ جس میںبائرن میونخ نے ایک گول سے جیت کرچَھٹی مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کیا۔
ٹینس کورٹس میں بھی کورونا کے اثرات نظر آئے۔کچھ ایونٹس ملتوی ، منسوخ ہوئے،تو کچھ میچز ایس او پیز کے ساتھ کھیلے گئے۔ برطانیہ کی تاریخی ٹینس چیمپئن شِپ ’’ومبلڈن‘‘ جو 29 جون سے 12 جولائی تک ہونا تھی، منسوخ کر دی گئی۔ فرینچ اوپن ملتوی کرکے 27ستمبر سے 11اکتوبر تک کھیلا گیا۔ فرینچ اوپن کے 124ویں ایڈیشن میں مینز سنگلز کا ٹائٹل اسپین کے رافیل نڈال نے 13ویں مرتبہ جیتا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے راجر فیڈر کے 20گرینڈ سلام ٹائٹل جیتنے کا ریکارڈ بھی برابر کر دیا۔ فائنل میں سربیا کے نوواک جوکوچ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ویمنز سنگلز کے فائنل میں پولینڈ کی ’’Iga Swiatek‘‘ نے دفاعی چیمپئن صوفیا کینن کو شکست دی اور اپنے ڈبلیو ٹی اے کیریئر میں پہلا ٹائٹل جیتا۔
فرینچ اوپن سے پہلے آسٹریلین اوپن ،جو سال کا پہلا گرینڈ سلم ٹورنامنٹ تھا، وقتِ مقررہ پر کھیلا گیا۔ 20جنوری سے 2 فروری تک ہونے والے ٹورنامنٹس میں تقریباً تمام ہی سرکردہ کھلاڑی ایکشن میں دکھائی دیئے۔ خصوصاًمینز سنگل فائنل میں نوواک جوکووچ اورڈومینِک تھیم کے درمیان دل چسپ مقابلہ ہوا ، 108ویں ایڈیشن کا یہ فائنل جوکووچ نے 2کے مقابلے میں تین سیٹس سے جیت لیا۔ ویمنز سنگلز میں صوفیا کینن فاتح قرار پائیں۔اسی طرح یو ایس اوپن کا 140 واں ایڈیشن 31 اگست سے 13 ستمبر تک ہوا ، لیکن کورونا وبا کے باعث دفاعی چیمپئن، رافیل نڈال ایونٹ سے دستبردار ہوگئے۔ مینز سنگل کے فائنل میں ڈومینِک تھیم نے الیگزینڈر زیورف کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا، جب کہ ویمنز سنگل کا ٹائٹل نائومی اوساکا کے نام رہا۔
مِکسڈ مارشل آرٹس کی دنیا کے روشن ستارے، خبیب نور ماگومیدوف کو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے '’’ورلڈ اسپورٹس اسٹار آف دی ایئر‘‘قرار دیا۔ 32سالہ کھلاڑی نےاپنے کیریئر میں 29نا قابلِ شکست مقابلے کرکے پروفیشنل ریکارڈ قائم کیا اور 24اکتوبر 2020ء کوعبوری چیمپئن امریکا کے جسٹن گیچےکو ایک یادگاری میچ میں شکست دے کر ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ۔
واضح رہے کہ جذباتی طور پریہ خبیب کے لیے کافی مشکل مقابلہ تھا ،کیوں کہ فائٹ سے چند ماہ قبل ہی ان کے والد اور کوچ کورونا کے باعث انتقال کرگئے تھے، یہی وجہ تھی خبیب نے اس مقابلے کواپنے والد اور کوچ کے نام کرکےاسے اپنا آخری مقابلہ قرار دیا۔فارمولا ون ریس آن اینڈ آف چلتی رہی، لیکن اس کی بڑی خبر برطانوی ڈرائیور لیوِس ہیملٹن کا عالمی ریکارڈ تھا۔ ہیملٹن نے پرتگیز گرانڈ پرِکس جیت کر مائیکل شوماکر کا 91ریسز جیتنے کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا۔ یہی نہیں، ہیملٹن اب تک 95ریسز کے ساتھ ساتویں مرتبہ عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرچُکے ہیں۔