2020ءوبا کا سال تھااور اس کے آگے اقوامِ عالم بےبس نظر آئیں۔ اس لیےکہ انسانی مقدرت اور اختیار میں جو کچھ ہے، اس حساب سے تو وبا کا ڈَٹ کرمقابلہ کیا جا رہا ہے، اگر نہ کیا جاتا، تو شاید اموات کی تعداد بھی کئی گُنازیادہ ہو تی۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ انسانی زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں اور انسان اشرف المخلوقات ہے، جو اپنے اشرف ہونے کا اظہار کسی نہ کسی طور کرتا ہی رہتا ہے، جیسا کہ سالِ نو سے قبل ہی مہلک وائرس کے خلاف موثر ویکسین تیار کرلی گئی ۔ نیز، سخت ترین وبائی ایّام میں بھی زندگی سے مایوسی کا اظہار کیا گیا اور نہ ہی زندگی کا احساس دیتی علمی و ادبی سرگرمیوں سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کی گئی۔
مارچ 2020ءکے وسط تک تو کورونا نے شدّت اختیار نہیں کی تھی، لہٰذا ادبی تقریبات، سیمینارز اور مشاعرے مُلک بَھر میں منعقد ہوتے ہی رہے۔ جرائد و کتب کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ تاہم،15مارچ سے عوامی تقریبات پر پابندی اور لاک ڈائون نے کچھ عرصے کے لیے ادبی دنیا پر بھی جمود طاری کیا۔ تخلیقی و سماجی سرگرمیاں بند ہو ئیں، تو ایک بحرانی صورتِ حال پیدا ہوگئی ۔
ویسے توکسی بھی بحران میں زندگی کا ہر شعبہ ہی متاثر ہوتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ تبدیلی انسانی نفسیات اور رویّوں میں محسوس کی جاتی ہے اور ادبی تاریخ گواہ ہے کہ ان تبدیلیوں سے ترتیب پاتی معاشرتی صورتِ حال کو بھی ادباء و شعرا نے ہمیشہ ہی اپنی تخلیقات کا حصّہ بنایا ہے کہ ادب کا بنیادی سروکار ہی انسان اور انسانیت سے ہے۔ جیسے کہا گیا کہ ’’دمشق میں قحط پڑا ہے، یاروں نے عشق فراموش کردیا ہے‘‘ تو گویا ہمارے ادب سے اس کی بڑی گواہی ملتی ہے۔’’خطوطِ غالب ‘‘ہوں ،راجندر سنگھ بیدی کا ’’قرنطینہ‘‘ یا قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامہ‘‘ کا آغاز،اسی طرح یورپ میں ’’دی کینٹر بری ٹیلز‘‘ ہو، ڈینیل ڈیفو کی ’’اے جرنل آف دی پلیگ ایئر ‘‘،کامیوکی ’’دی پلیگ ‘‘یا گارشیا مارکیز کی ’’وبا کے دنوں میں محبّت‘‘…وبا میں انسانی مزاج اور فطرت پر اس کےاثرات ادب کا حصّہ بنتے رہے ہیں۔
حالیہ کووڈ19کی وبا میں سب سے اذّیت ناک احساس سائنسی دَور میں انسان کی بے بسی ہے کہ جہاں پوری دنیا میں دفاعی نظام بہتر بنانے پر تمام تر توجّہ مرکوز اور نِت نئی ایجادات کا سلسلہ جاری ہے، وہاں انسانی مدافعتی نظام میں بہتری کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا، حالاں کہ ڈاکٹر رونالڈ جے گلاسیر جیسے مصنّفین ’’وی آر ناٹ امیون‘‘ جیسے مضامین لکھ رہے تھے، لہٰذا آج بھی چھوٹا سا وائرس پوری دنیا کو جامد کرکے اس تنہائی کی طرف دھکیل سکتا ہے ،جہاں انسان دوسروں سے ہاتھ ملانا تو دُور، خود اپناچہرہ بھی چُھونے سے قاصر ہے۔
تنہائی ادب کو تحریک دیتی ہے اور ادیب کی تخلیقی صلاحیتیں بڑھا دیتی ہے، لیکن ادیب کو ملنے والی حالیہ تنہائی دراصل جبری تنہائی ہےاور شاعر و ادیب تو یوں بھی ہر جبر کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے جبری تنہائی انسان میں اکتاہٹ اور وحشت پیدا کردیتی ہے، بلکہ فرانسیسی زبان میں اکتاہٹ کے لیے مستعمل لفظ کا مطلب ہی تخلیقی صلاحیت میں کمی ہے۔ لہٰذا، وبا کے ابتدائی دنوں میں شاعر و ادیب بھی اسی صورتِ حال پر غور کرتے اور اس سے وحشت اور اکتاہٹ کا اظہار کرتے نظر آئے۔ کامیو سے لے کر آج تک سوچنے والے ذہنوں کے لیے سب سے اہم سوال یہی رہا ہے کہ یہ وائرس قدرت کی طرف سے ہے یا کسی تجربہ گاہ کی ایجاد ۔
کورونا کے شب و روز کے پس منظر میں مستنصر حُسین تارڑ نے ’’شہر خالی، کوچہ خالی‘‘ تحریر کیا،تو آصف فرخی نے اپنے جذبات و احساسات کو ڈائری کی شکل دی اور ’’تالا بندی کا روزنامچہ‘‘ تحریر ہونے لگا ،جب کہ ڈاکٹر جعفر نے کئی اقساط میں وبائی ادب کو عالمی اور اردو ادب میں تقسیم کرکے تجزیہ کیا۔دوسری طرف شعراء نے بھی اپنے احساسات و جذبات کو منظوم شکل دی اور ساتھ ہی ساتھ اس جبری تنہائی سے لڑنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے مفید استعمال کا خیال پھیلنا شروع ہوا۔ کئی شاعروں نے یوٹیوب چینلز بنا ئے، کچھ فیس بُک اور سوشل میڈیا پر اپنا کلام پیش کرنے لگے۔ ساتھ ہی اداروں نے بھی آن لائن مشاعروں، کانفرنسزاور سیمینارز کا انعقاد ممکن بنانے پر توجّہ دی اور یوں اچھا خاصا ’’کورونائی ادب‘‘ وجود میں آگیا۔ یہ ادب مختلف رسالوں نے گوشوں اور نمبرز کی صُورت شایع کرکے محفوظ دستاویز میں تبدیل کیا،تو مسرت زہرا کنول نے وبا کے مختلف پہلوئوں پر غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ’’درد کی دہلیز پر‘‘ کتابی شکل میں بھی شایع کیا، جسے’’کورونا شاعری‘‘ کا پہلا مجموعہ قرار دیا گیا۔
اسی طرح ’’لاک ڈائون اور ڈائری‘‘ (ادارئہ انحراف) جیسے سلسلوں کا آغاز کیا گیا، جس میں ادباء و شعراء کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی اپنے احساسات کو تحریری شکل دی۔ یہ ادب نہ صرف آج ،بلکہ آئندہ وقتوں میں بھی وبائی صورتِ حال میں انسانی نفسیات، احساسات اور حالات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا اور اس ادب کا تجزیہ آنے والے وقت میں ان سوالوں کا جواب بھی دے گا کہ اس جبری تنہائی اور سماجی دُوریوں کو ادب نے کیسے قبول کیا ۔ ممکن ہے یہ سوال سمجھنے میں کچھ اور چیزیں بھی ہمارے سامنے آجائیں ، لیکن ایسے کسی تجزیے میں ہنگامی نوعیت، فوری ردّ ِعمل اور صحافتی سطح کا ادب یقیناً توجّہ کا مرکز نہیں بنے گا، بلکہ اُنہی تخلیقات سے مدد لی جائے گی کہ جن میں شعریت کے ساتھ گہری معنویت اور سماجی صورتِ حال کو گرفت کیا ہوگا۔
اس بحرانی صورتِ حال نے لوگوں کو معاشی لحاظ سے بھی شدید متاثر کیا، جن میں بہت سے شاعر و ادیب بھی شامل تھے۔ آرٹس کاؤنسل، کراچی نے اس موقعے پر ادارے کا کردار تبدیل کرتے ہوئے رفاہی کاموں کا آغاز کیا اور شاعروں، ادیبوں کو معاشی بحران سے بچانے کی کوشش کی۔ 2020ءکی سب سے بڑی تقریب آرٹس کاؤنسل،کراچی کی ’’تیرہویں عالمی اردو کانفرنس ‘‘قرار دی گئی ۔یہ کانفرنس ایس او پیز کی سخت پابندی کے ساتھon stageاور on liveبیک وقت منعقد ہوئی ،جس نے یہ احساس بھی اُجاگر کیا کہ ادب و ثقافت کے فروغ میں وبا، سرحدیں اور ویزے اب مانع نہیں رہے۔اس چار روزہ کانفرنس میں ساری دنیا سے مندوبین اور حاضرین نے شرکت کی۔
کانفرنس میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، علی رضا عابدی، افتخار عارف،امجد اسلام امجد، اشفاق حُسین، منظر بھوپالی، خوشبیر سنگھ شاد، فرحت احساس، شاہدہ حسن، یاسمین حمید، عشرت آفریں، ڈاکٹر ضیاء الحسن، ڈاکٹر ناصر عبّاس نیّر، ڈاکٹر نعمان الحق، نجیبہ عارف اور دیگر نے ورچوئل شرکت کی۔اس کے علاوہ ’’سیرت النّبی ﷺکانفرنس‘‘ بھی منعقد ہوئی۔اکادمی ادبیات بھی سال بھر آن لائن کانفرنسیں اور پروگرامز منعقد کرتی رہی اور بےحد فعال رہی۔ حلقہ ٔاربابِ ذوق، اردو لغت بورڈ اور مختلف یونی ورسٹیز مثلاً بہائو الدین ذکریا یونی ورسٹی،نسٹ وغیرہ نے بھی آن لائن ادبی تقریبات اور مشاعرے کیے۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول،اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول ،فیصل آباد لٹریری فیسٹیول، ملتان لٹریری فیسٹیول،وغیرہ ادبی دنیا پر طاری جمود توڑنے میں کام یاب رہے۔
سالِ رفتہ لاک ڈائون کے سبب کتابیں کم شایع ہوئیں، مگرجو ہوئیں،اُن میں شاعری کی کتب کی تعداد زیادہ تھی۔ غزلوں کے ساتھ ساتھ نظموں اور خصوصاً نثری نظموں کے کئی مجموعے منظرِ عام پر آئے۔ ان کتابوں میں ’’کلامِ رابعہ نہاں‘‘ ( حمرا خلیق)،’’ کلیاتِ بلقیس جمال بریلوی‘‘ (حمرا خلیق)، ’’نیازی گوشۂ دل‘‘ (حمرا خلیق)،’’ کلیاتِ جوش‘‘ (ہلال نقوی ،تین جِلدیں)، ’’ڈھلتی عُمر کے نوحے‘‘ (ڈاکٹر وحید قریشی، مرتّب:اورنگ زیب نیازی )،’’دریا کی تشنگی‘‘ (کشور ناہید) ،’’ایک گِرہ کُھل جانے سے‘‘ (امجد اسلام امجد) ، ’’خواب ریزے‘‘ (کرامت بخاری) ،’’جمالِ آب سے وصال‘‘ ( صابر ظفر) ’’اداسی کے گھائو ‘‘(عذرا عباس)، ’’نئی زبان کے حروف‘‘( تنویر انجم) ،’’شش جہات‘‘ (قمر رضا شہزاد) ،’’اتمامِ حُجت‘‘ (قمر رضا شہزاد )،’’ پریاں اُترتی ہیں‘‘ (وحید احمد، دو ایڈیشن )، ’’بارش بھر اتھیلا ‘‘( مسعود قمر) ،’’حدیثِ دلبراں ‘‘( مجید اختر )،’’ دسواں رنگ بھی اُس کا ہے‘‘ (علی محمّد فرشی ، کلیاتِ اوّل تین غیر مطبوعہ مجموعوں کے ساتھ )، ’’خانہ بدوش آنکھیں ‘‘ (طاہر حنفی)، نمی دانم(شکیل جاذب)،’’قوسِ خیال‘‘ (یوسف خالد، قطعات) ’’مَیں بھی ہوں‘‘ (احتشام حُسین) (طالب حُسین طالب)،’’چاک اور چراغ‘‘ (شائستہ مفتی: نظمیں اور افسانے )،’’موت کی ریہرسل ‘‘(سدرہ سحر عمران)، ’’اوجِ کمال ‘‘(سیّدہ ہما طاہر) وغیرہ اہم ہیں۔
افسانوں کے اہم مجموعوں میں ’’مَیں ‘‘ (خالد فتح محمد) ،’’خواب گلی‘‘( محمود احمد قاضی)، ’’ایک زمانہ ختم ہوا ہے‘‘ (ناصر عباس نیّر )، ’’گھٹیا آدمی‘‘ ( کلیم خارجی)شامل ہیں۔ناولز میں ’’اے فلکِ نا انصاف( حسن منظر)،’’پارے شمارے ‘‘(شاہین عبّاس)، ’’کماری والا‘‘(علی اکبر ناطق)،’’ حسرتِ تعمیر ‘‘( اعجاز روشن)، شجر حیات (ریاظ احمد) قابلِ ذکر ہیں۔تنقید میں ’’کولو نیلیٹی ،ماڈرینیٹی اینڈ اردو لٹریچر‘‘ (ڈاکٹر ناصر عبّاس نیّر) ،’’ جدید ادب کا سیاق‘‘ (پروفیسر ڈاکٹر علمدار حُسین بخاری)،’’مابعد جدیدیت اور چند معاصر متغزلین ‘‘(اکرم کنجاہی) ،’’راغب مراد آبادی، چند جہتیں ‘‘(اکرم کنجاہی،دوسرا ایڈیشن ) ،’’فِکشن ، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت‘‘ (فرخ ندیم) شایع ہوئیں۔گزشتہ برس کچھ تراجم بھی شایع ہوئے، جن میں ’’دریا کنارے ‘‘ (ہرمن ہیسے کے ناول ’’سدہارتھ‘‘ کا ترجمہ اور تجزیہ ،عطیہ سیّد) ’’امرتسر آ گیا ہے‘‘(مترجم :انعام ندیم ،بھیشم ساہنی کے افسانے ) ، ’’ادب کی سماجیات‘‘( مترجم عمران ازفر۔ منیجر پانڈے کی کتاب ’’ساہتیہ کے سماج شاستر کی بومیکا) شامل ہیں۔نثر کی دیگر کتابوں میں ’’نوادراتِ فیض‘‘ (ڈاکٹر محمّد منیر احمد سلیچ) ،’’شاعر ، مصوّر ،خطاط ، صادقین ‘‘(سلطان احمد نقوی)،’’ مجموعہ خطوط حسن نظامی‘‘ ( مرتبہ: محترمہ لیلیٰ خواجہ بانو اہلیہ حسن نظامی،’’ تہذیب نو‘‘( عثمان وجاہت)، ’’ارژنگ‘‘ (مبین مرزا ، خاکے)،’’راگنی کی کھوج میں ‘‘ (نجیبہ عارف، یادیں، تصوّف)،’’کالم پارے ‘‘ (پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی)،’’درویش نامہ ‘‘ اقبال نظر (رپورتاژ ، یادیں)، ’’کنول ،پھول اور تتلیوں کے پنکھ ‘‘(طاہرہ کاظمی ،کالم)، ’’رموزِ شعر‘‘ (احمد حُسین مجاہد )، ’’وفیاتِ مشاہیرِ لاہور( ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ)، ’’ نصر اللہ خان: اک شخص مجھی سا تھا‘‘ (عقیل عباس جعفری، بازیافت وتدوین) ،’’جیون دھارا‘‘ (ہدیۂ ظفر، خود نوشت)’’ کمال ہم نشیں‘‘(سید بابر علی، سوانح حیات)، صبیح رحمانی کی ’’اردو کا حمدیہ ادب، اجمالی جائزہ‘‘ نسیم سحر کا نعتیہ مجموعہ ’’محورِ دو جہاں‘‘ ’’مطالعاتِ حمد و نعت‘‘ (نسیم سحر، تنقیدی مضامین)، ’’ربنا لک الحمد‘‘ (ڈاکٹر محمد افتخار الحق ارقم، ہدیہ حمد) ،’’خواب، اجتماعی شعور اور اختر رضا سلیمی‘‘ (خالد محمود سامٹیہ) ’’لخت لخت داستاں/ دھند اور دھنک‘‘ (خاکے اور یادداشتیں) بریگیڈیئر اسماعیل صدیقی(ترتیب، اہتمام و پیشکش:راشد اشرف)اور’’عظمت رفتہ‘‘ (ضیاء الدین احمد برنی، شخصی خاکے، ترتیب، اہتمام و پیشکش: راشد اشرف)قابلِ ذکر ہیں۔
لاک ڈائون کی وجہ سے ادبی جرائد تاخیر اور تعطّل کا شکار رہے، جب کہ کچھ جرائد نے وبا کے ادب کو خاص جگہ دی ، جن میں ’’دنیا زاد‘‘، وبا نمبر(شمارہ 49:) سب سے اہم ہے۔یہ شمارہ دنیا زاد کی آخری کتاب تھی ،جو اس کے مدیر ،ڈاکٹر آصف فرخی ترتیب دے رہے تھے، مگر ان کی اچانک رحلت کے بعد ان کی صاحب زادی ،غزل آصف، ڈاکٹر شیر شاہ،سید کاشف رضا اور ڈاکٹر انعام ندیم نے شایع کیا۔ دنیائے ادب میں یہ خبر دُکھ سے سُنی گئی کہ یہ ’’دنیا زاد‘‘ جیسے موقر جریدے کا آخری شمارہ تھا۔ نعت رنگ کا 30واں ضخیم شمارہ شایع ہوا، جب کہ جہانِ حمد، رثائی ادب بھی شایع ہوئے۔سالِ رفتہ ’’لوح ‘‘ کا خصوصی ضخیم شمارہ ’’ ناول نمبر ‘‘ شایع ہوا، جو ناول کی ڈیڑھ صدی کی تاریخ کا عُمدگی سے احاطہ کرتا ہے۔ ’’استعارہ ‘‘ کا ’’ حسن عسکری نمبر ‘‘ شایع ہوا، جو اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے۔
اسی طرح’ ’اجرا‘‘ نے شکیل عادل زادہ نمبر شایع کیا۔ سہ ماہی ’’ادبیات‘‘ کا اردو ناول ’’ڈیڑھ صدی کا قصّہ ‘‘ اور ’’موزیک‘‘ کا ’’خالد سعید نمبر ‘‘ شایع ہوئے، ’’چہار سو ‘‘نے مبین مرزا گوشہ شایع کیا۔ دیگر پرچوں میں مکالمہ ،ادبِ لطیف(حُسین مجروح،خاص شمارہ) ،فنون ،بیلاگ، بنیاد ، زیست ، الحمرا ،تناظر ،سیپ، ادبِ عالیہ، کولاژ، تطہیر ،ساتھی،پیلوں، پیغامِ آشنا ،عمارت کار، الاقربا، فن زاد، شعرو سخن ،انشا، جمالیات، دنیائے ادب ،ارژنگ، الماس، لوحِ ادب، دریافت ، آج، شعرو سخن، اوریئنٹل کالج میگزین، تحقیقی زاویے، بازیافت ،تحقیق، تخلیقی ادب، تحقیق نامہ، جرنل آف ریسرچ، خیابان ، معیار، رسالہ، زبان و ادب الزبیر ، تخلیق ،اردو اخبار، نیرنگ خیال، چہار سُو، مجلسِ ترقیٔ اردو اخبار، تہذیب، دانش، اردو، قومی زبان، پاکستانی زبان و ادب، نیرنگِ بیاض، ذوق وشوق ،سپوتنک ،کاغذی پیرہن، مجلّہ ٔبدایوں، مخزن، ثبات، غنیمت، کارواں، ادبِ معلّیٰ ، ادب دوست، ندائے گل، حرف انٹرنیشنل ،عکّاس انٹرنیشنل، انہماک ، بجنگ آمد، نزول، بیاض، فانوس، کہکشاں ،قلم کی روشنی، ہم رکاب، صبحِ بہاراں ، کارواں، اجمال، تلازمہ ،راوی، قرطاس ،قلم قبیلہ، انگارے، فکرو نظر ،ارتقا ،نمود ،عالمی رنگ و ادب ،آہنگ، عبارت، الایّام، سنگ، کہانی گھر ،پاکستان شناسی ، پیامِ اُردو ،امتزاج ، ارتفاع، ثالث، تفہیم، سوچ، ابجد، نوارد، دستک، دھنک، اُردو کالم، تعبیر،پیامِ آشنا، ادب و کتب خانہ اورالحمد وغیرہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ وبا کے دنوں میں خوش آئند، حوصلہ بخش سرگرمیاں اور اشاعتیں تو جاری رہیں، مگربڑی تعداد میں گراں قدر شخصیات بھی ہم سے جدا ہو گئیں،جن کی کمی شدّت سے محسوس کی جائے گی۔جُدا ہونے والی شخصیات میں پروفیسرعنایت علی خان،علاّمہ طالب جوہری، علّامہ ضمیر اختر نقوی، سلطان جمیل نسیم، مسعود مفتی، منظر ایوبی، اشفاق سلیم مرزا ،غلام علی الانا،احفاظ الرّحمان،اطہر شاہ خان جیدی، ظفر اکبر آبادی، ابنِ نسیم امروہوی ،طارق عزیز ، عبدالقادر جونیجو، شبی فاروقی، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، سیّد اقبال حیدر، پروفیسر انوار احمد زئی، سرور جاوید، سیّد ناصر زیدی، ڈاکٹر آصف فرخی، تاج بلوچ ، قاضی جاوید،سید ضمیر اختر، سلیم عاصمی،سیّد اطہر علی ہاشمی ، ماہ طلعت زاہدی، عادل ابراہیم، سید محمد منیر حسین شاہ(گستاخ بخاری)، شوکت مغل، عبدالقادر حسن، روبینہ الماس، ش- شوکت، ظفر حُسین، رشید مصباح، ملک ذوالفقار علی دانش ،محمّد خالد،سید حیدرحُسین زیدی، شوکت مغل، جلال الدّین احمد، فاروق انصاری، ریحانہ اشرف، ناصر رضا جعفری، افراسیاب کامل، سید آلِ عمران، طاہر نقوی، عمران نقوی، قیصر محمود، ڈاکٹر اعجاز حُسین قریشی، سید سعود ساحر، عابد شاہ عابد، کبیر اجمل، ناصر عباس جالب، امیر حُسین چمن اور عمران لاری کے نام شامل ہیں۔کہنے کو تو وبا کی بادِ صَر صَر نے وقتی طور پر لالہ و گُل کو مُرجھا دیا ہے، لیکن ان کے رنگ و بُو ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہو سکتے ۔