پی ڈی ایم بننے سے پہلے اُس میں شامل جماعتوں کی پوزیشن کو دیکھتے ہیں۔ اُن دنوں پیپلز پارٹی برہم اور خوفزدہ تھی کیونکہ اُس کے ساتھ ہونے والی ڈیل کی باقی شقوں پر عمل نہیں ہوا تھا۔ زرداری خاندان کیخلاف کیسز کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ فالو اپ کرکے اُن کو سزائیں دینے کی تیاری بھی ہورہی ہے۔
سندھ حکومت چھیننے کے بھی اشارے مل رہے تھے۔ یوں زرداری اور بلاول نظریاتی ہونے کا تاثر دینے لگے۔ اُس وقت مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا بھی ذہن بن گیا تھا کہ اُس کے ساتھ ہونے والی ڈیل کی شقوں پر عمل نہیں ہورہا۔ وہ یہ سوچ رہی تھی کہ شریف بن کر اور آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے حق میں ووٹ دے کر استعمال ہوئے اور اب دوبارہ ان کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔
میاں نواز شریف کی رائے بن گئی کہ نہ صرف ان کی بیٹی کو لندن آنے نہیں دیا جارہا بلکہ ان کی کردارکشی کے منصوبے بھی تیار ہورہے ہیں۔ اس دوران کچھ دوست ممالک بھی عمران خان سے ناراض ہوکر ان سے دوبارہ تعلقات استوار کر بیٹھے۔ یوں وہ نظریاتی بننے لگے۔
مولانا فضل الرحمٰن تو شروع دن سے حکومت کے خلاف میدان میں نکلنے کے لئے بےتاب تھے لیکن کبھی زرداری ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتے تھے اور کبھی نواز شریف۔ گزشتہ سال ان کے دھرنے سے فائدہ اٹھا کر دونوں جماعتوں نے اپنا اپنا الو سیدھا کرکے اُنہیں تنہا چھوڑ دیا اور اس کے بعد وہ اکیلے بھٹکتے پھر رہے تھے۔ یہی حالت قوم پرست جماعتوں کی بھی تھی۔
مذکورہ تناظر میں زرداری صاحب، مولانا فضل الرحمٰن کے پاس آئے اور اُن کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ اب وہ ان کے ہمراہ میدان میں نکلنے اور انقلابی بننے کو تیار ہیں۔ مولانا پوری طرح یقین نہیں کررہے تھے لیکن جب زرداری صاحب نے سب کو اکٹھا کرنے اور اے پی سی کی میزبانی خود کرنے کا ذمہ اٹھایا تو مولانا کو کچھ نہ کچھ یقین آگیا۔
دوسری طرف زبیر عمر کی مشہور زمانہ میٹنگ کے نتائج کے بعد میاں نواز شریف بھی مکمل طور پر مایوس ہو گئے اور مولانا سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو قائل کرنے میں لگ گئے کہ اب کی بار وہ ایسے نظریاتی بن گئے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ اور سن کر پرویز رشید کو بھول جائیں گے۔
چنانچہ پیپلز پارٹی کی بلائی گئی اے پی سی میں پی ڈی ایم اتحاد بنا۔ مولانا کو سربراہ بنایا گیا اور سب اس پر مطمئن ہو گئے کہ ماضی کے برعکس اب چونکہ یہ ایک اتحاد بن گیا ہے، اس لئے کسی جماعت کے لئے اس سے پسپا ہوکر نکلنا سیاسی موت کے مترادف ہوگا، اس لئے مولانا نے بھی اس کی خاطر کشتیاں جلانے کا فیصلہ کر لیا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل کس جماعت کی کیا قوت تھی یا ہے؟
پیپلز پارٹی احتجاج میں موثر کردار ادا نہیں کر سکتی لیکن سسٹم کا حصہ ہونے کے ناطے اگر وہ استعفے دیتی تو حکومت کو گرانے میں کسی دوسری جماعت سے بڑھ کر کردار ادا کر سکتی تھی اور ابتدا میں استعفے دینے پر رضا مندی ظاہر کرکے گویا اُس نے اپنی اصل طاقت پی ڈی ایم کے پلڑے میں ڈال دی۔ مسلم لیگ(ن) کی طاقت جو حکومت اور اُس کے سرپرستوں کو پریشان کر سکتی ہے، وہ میاں نواز شریف کی زبان ہے۔
تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے پنجاب کے پاپولر لیڈر اگر اِسی طرح زبان استعمال کریں جو اُنہوں نے گوجرانوالہ میں استعمال کی تو اُس کی قیمت بھاری اپنی جگہ لیکن وہ طوفان برپا کردیتی ہے۔ میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے تاسیسی اجلاس میں اِس طرح کی زبان استعمال کرکے یہ تاثر دیاکہ وہ کشتیاں جلا چکے ہیں۔
مولانا کی اصل طاقت اُن کا مذہبی اور جنونی قسم کا ورکر اور اور اُن کے پاس موجود مذہبی کارڈ ہے۔ دوسری طاقت اِس وقت اُن کے ہاتھ میں یہ آگئی کہ صرف وہ ایسی شخصیت بن گئے ہیں جن کی قیادت پر بیک وقت زرداری اور نواز شریف متفق ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ مولانا بھی کشتیاں جلا کر پوری طرح میدان میں نکل آئے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اُس کی تینوں بڑی جماعتیں (پی پی پی، نون لیگ اور پی ٹی آئی) رتی بھر نظریاتی نہیں رہیں۔ بہر حال جب پی ڈی ایم اتحاد بن گیا تو اس کا بننا اور پھر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا ابتدائی رویہ مقتدر حلقوں اور حکومت کے لئے بڑا سرپرائز تھا۔
کارکنوں اور عوام کی طرف سے اس کو جو پذیرائی ملی، اُس نے اقتدار کے ایوانوں کو اور بھی ہلا کر رکھ دیا۔ چنانچہ حکومت نے لتاڑنا اور مقتدر حلقوں نے سمجھانا بجھانا شروع کردیا۔ ورکر اور ووٹر پی ڈی ایم کو نظریاتی سمجھ رہا تھا جبکہ مولانا اور پی ڈی ایم میں شامل قوم پرست جماعتیں بھی کچھ وقت کے لئے غلط فہمی کا شکار رہیں لیکن زرداری صاحب نے اچانک پاور پالیٹکس شروع کردی اور میاں صاحب کو بھی ہمنوا بنانے میں لگ گئے۔
پھر خود میاں صاحب سے بھی رابطے ہوئے اور وہ بھی ایک بار پھر پاور پالیٹکس والے نواز شریف بننے لگے۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ سسٹم سے نکلنے کی بجائے سسٹم کے اندر تبدیلی لائی جائے گی۔
زبانی حد تک معاملہ سخت رکھیں گے اور دبائو بھی بڑھائے رکھیں گے لیکن ہدف سسٹم کی بجائے عمران خان کی رخصتی ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی اس نئی سیاست کو سمجھانے کے لئے میں یہ سادہ فقرہ استعمال کرتا ہوں کہ قول احمد فراز والا ہوگا لیکن سیاست شبلی فراز والی ہوگی۔
اب یہ گیم بن جانے کے بعد مولانا اور قوم پرست جماعتوں کے پاس دو راستے تھے۔ یا پی ڈی ایم توڑ دیتے یا پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی جوڑ توڑ کی سیاست کو مہلت دیتے۔ چنانچہ انہوں نے دوسرا آپشن اپنا لیا اور پی ڈی ایم اتحاد کو ایک رکھنے کے لئے زرداری صاحب کو اپنے اوپر بھاری کرلیا۔
چنانچہ اب پی ڈی ایم اتحاد باقی ہے اور باقی رہے گا لیکن اخلاقی برتری اس کے پاس کوئی نہیں رہی۔ بلکہ اس کی اور پی ٹی آئی کی اخلاقی پوزیشن ایک ہوگئی ہے۔ جس طرح عمران خان ایمپائر کے اشارے کے انتظار میں تھے، اسی طرح اب پی ڈی ایم اور بالخصوص پیپلز پارٹی اور نون لیگ والے بھی ایمپائر کا انتظار کریں گے۔
بس تھوڑا سا فرق یہ ہے کہ پی ٹی آئی ایمپائر کے قدموں میں بیٹھ کر جو کام اس سے لینا چاہ رہی تھی، پی ڈی ایم عوام اور زبان کے دبائو کو استعمال کرکے اسے اپنے ساتھ ایک پیج پر لانا چاہتی ہے۔ بہر حال مارچ تک یہ گیم واضح ہوجائے گی کہ زرداری اور نواز شریف کی توقعات پوری ہوتی ہیں یا نہیں یا وہ ایک بار پھر ہاتھ ملتے ہوئے نظریاتی بننے پر مجبور ہوتے ہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)