• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترک صدر رجب طیب ایردوان کو اقتدار دلوانے میں ہیڈ اسکارف سے متاثرہ خواتین اور ان کے عزیزو اقارب کا بڑا اہم کردار تھا۔ ایردوان نے اقتدار میں آکر سب سے پہلے ہیڈاسکارف کی وجہ سے یونیورسٹیوں سے نکالی جانے والی طالبات کیلئے نئے سرے سے تعلیم کے دروازے کھولنے کا وعدہ کیا تھا جس کی بدولت ترکی کی سیاست کا انداز ہی تبدیل ہو کر رہ گیا اور نئی جماعت تشکیل پانے کے چند ماہ کے اندر اندر واضح اکثریت حاصل کرتے ہوئے برسر اقتدار آگئی۔ایردوان برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد ہیڈ اسکارف سے متاثرہ خواتین کے لیے یونیورسٹیوں کے دروازے تو نہ کھول سکے لیکن قانونی لحاظ سے انہوں نے اپنی جدو جہد کو جاری رکھا اور قومی اسمبلی میں جیسے ہی انہیں موقع ملا انہوں نے ہیڈ اسکارف سے متعلق قانون میں تبدیلی کرواتے ہوئے مستقل طور پر اس مسئلے کو حل کردیا۔ کتنے ظلم کی بات ہے کہ صرف ہیڈ اسکارف کی وجہ سے کوئی خاتون فوجی اسپتال میں اپنا علاج تک نہ کراسکتی تھی لیکن ایردوان نے وہ کچھ کر دکھایا جس کے بارے میں ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والےمتعدد اراکین کو بھی یقین نہ تھا ۔ انہوں نے ترک سیاست کا پانسہ پلٹ کر ایسے اقدامات اٹھائے جن کے بارے میں کوئی سیاسی رہنما سوچنے کی جسارت تک نہیں کرسکتا تھا۔

اب آتے ہیں ترکی کی حزبِ اختلاف کی جانب جس کی قسمت میں اقتدار میں نہ آنے کی مہر ثبت ہوچکی ہے۔ دراصل یہ مہر ثبت کرنے والے بھی اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے چند ایک ایسے رہنما ہیں جو اپنے آپ کو اتاترک کے فالورز ، نام نہاد سیکولر کہلوانے اور ملک کی ترقی کو جدید ملبوسات زیبِ تن کرنے سے ہی منسوب کرتے ہیں حالانکہ اتاترک کی قائم کردہ ری پبلکن پیپلز پارٹی اس بات کو اچھی طرح جان چکی ہے کہ اسے ووٹ نہ ملنے کی سب سے بڑی وجہ ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور اُن کیلئے سرکاری اداروں میں ملازمت کے دروازے بند کرنا تھا۔ اپنی اس غلطی کا احساس کرتے ہوئے اس جماعت نے مجبور ہو کر ہیڈ اسکارف سے متعلق بل کی حمایت میں ووٹ دے کر اپنے اوپر لگے اسلام دشمن لیبل کو ہٹانے کی بھر پور کوشش کی لیکن عوام آج بھی اس پارٹی کو اسلام دشمن پارٹی تصور کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہ پارٹی ستر کی دہائی کے بعد سے اقتدار حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس صورتِ حال کر دیکھتے ہوئےاگرچہ پارٹی کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو نے پارٹی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین کو پارٹی کی رکنیت عطا کی ہے لیکن عوام ان خواتین کو صرف پارٹی کے شوکیس ہی کے طور پر دیکھتے چلے آرہے ہیںاور ان کو پختہ یقین ہے کہ پارٹی پر کمالسٹس کہلوانے والے نام نہاد سیکولر حلقے اپنی گرفت قائم کیے ہوئے ہیں۔ان کمالسٹس رہنمائوں میں سابق وزیر ثقافت و سیاحت فکری ساعلرکا یہ بیان ’’ ہیڈ اسکارف پہننے والی جج کے انصاف پسند ہونے پر مجھے قطعاً یقین نہیں ہے ‘‘ بم بن کر پارٹی پر گرا ہے۔ پارٹی میں ایسی سوچ رکھنے والے عناصر نے پوری جماعت کو یرغمال بنا رکھاہے جبکہ کسی دور میں ترکی کے سابق وزیراعظم بلنت ایجوت نے اس جماعت کو اس قسم کی سوچ سے دوررکھنے کی بھر پو ر کوشش کی تھی لیکن ناکام رہنے پر پارٹی سے علیحدہ ہو کر نئی جماعت تشکیل دینےکے سو اکوئی چارہ کار باقی نہیں بچا تھا جس کے بعد وہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے وزیراعظم بنے تھے۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین کمال کلیچدار اولو بھی اگرچہ پارٹی کو مذہب دشمن کالیبل لگنے سے بچانے کی بھر پور کوششیں کررہے ہیں لیکن فکری ساعلر کی طرح کے رہنما اپنے آپ کو اتاترک کا سچا فالور اور سیکولر قرار دیتے ہوئے پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ پارٹی جب کبھی مذہب دشمن لیبل ہٹانے کے قریب پہنچتی ہے تو فکری ساعلر کی طرح کے دیوانے لوگ اسے دوبارہ سے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں اور یوں یہ اقتدار کے قریب پہنچ کر پھر دور ہو جاتی ہے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں اس جماعت کے حامی ایک اخبار’’ سوزجو Sozcu‘‘نے صدر ایردوان کے آیا صوفیہ کو مسلمانوں کی عبادت گاہ یعنی مسجد میں ڈھالنے کے فیصلے کو ’’صدی کی سب سے بڑی تباہ کاری‘‘ قرار دیا جبکہ 29 مئی 1453کو اس کلیسا کو سلطان محمد فاتح کی جانب سے فتح کیے جا نےکے بعد اسے مسجد میں ڈھالنے کو یورپی باشندوں نے سب سے بڑی تباہ کاری قرار دیا تھا۔ عیسائی باشندے استنبول کی فتح اور اس عظیم الشان عبادت گاہ کے مسلمانوں کے ہاتھوں چلے جانے کو کبھی ہضم نہیں کرسکے اور اب یہی بات ری پبلکن پیپلز پارٹی کے حامی اخبار کی جانب سے شائع ہونے پرترک عوام کی جانب سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔صدر ایردوان سے آیا صوفیہ میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد صحافیوں نے اس سلسلے میں سوال کیا تو انہوں نے برملا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں میں روزنامہ سوزجو کو نہیں پڑھتا اور میں سب کو کہوں گا کہ ، آپ خواہ مخواہ اس اخبار کو خریدنے پر اپنی رقم ضائع مت کریں ۔ آیا صوفیہ سال 2020 کا تاج والا ستارہ ہے‘‘۔

جدید جمہوریہ ترکی کی تاریخ میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی طرف سے مذہب اسلام سے محبت کرنے والے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں پر’’قدامت پسند اور تنگ نظر‘‘ ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اور خاص طور پر سابق وزرائےعظم ایربکان، سلیمان دیمرل اور ترگت اوزال اور موجودہ صدر ایردوان کو سیکولر دشمن قرار دیا جاتا رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین