سالِ گزشتہ پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا معاشی ، سماجی، سیاسی اورجمہوری بحرا ن کا شکار رہی جس کی وجہ عالمی سطح پر پھیلنے والی وبا کووِڈ۔اُنّیس تھی۔ اس وقت بھی دنیاکا بڑا حصہ کورونا وائرس کا شکارہے جس نےہمارے سیاسی، سماجی، انتظامی ، نفسیاتی ا ور معاشی ڈھانچوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس وبا نے ہمیں ایسا وقت دکھایاہے جو تاریخ میں آج تک نہیں دیکھا گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کورونا وائرس اس وقت آیا جب دنیا بہت کچھ سیکھ چکی ہے ۔
جدید ٹیکنالوجی کے باعث دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے حملے نے دنیا کےبڑےبڑے ملکوں کی معاشی، سماجی اورانتظامی صلاحیتوں کو بے نقاب کر دیاہے۔ کسی بھی بڑے حادثے سے نمٹنے کی ان میںکتنی صلاحیت ہیںاور وہ ان حادثات سے خود کو کس طرح بچا سکتے ہیں یہ سب پر آشکار کردیا ہے۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ کورونا وائرس کی وبانےدنیا سےمتعلق بڑے فیصلوں، جن میں سیکیورٹی، تنازعات، تضادات، جنگیں، امیری اور غریبی میں سیاسی، معاشی اور سماجی ناہم واریاں،با لخصوص صحت کے ڈھانچوں اور انسانوں پر سرمایہ کاری کے مسائل کو بھی بری طرح بے نقاب کیا ۔
عالمی مالیاتی ادارے ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ترقی پزیر ممالک کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے چاہئییں۔ ان تمام ممالک کے لیے قرضوں کی واپسی اور رعایتی قرضوں کے لیے بھی راہ نمائو ںسے رجوع کرنے پر غور کیا گیا۔ تمام غریب ممالک اس وقت عالمی مالیاتی دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ خود بڑے ممالک بھی کوروناوائرس کا شکار ہوئے اور ان کا اپنا معاشی نظام بھی تباہ حالی کا شکار ہوا۔
پاکستان کی معیشت کو بھی دنیا بھر کی طرح اس وبا نےبڑی مشکل میں ڈال دیا ۔ ملک میں کورونا وائرس کا پہلا مریض 26فروری 2020کوسامنے آیاتھا۔10 مارچ تک 16اور 20 مارچ تک یہ تعداد 454ہوئی۔ 25مارچ کو مریضوں کی تعداد 991تک ہو چکی تھی۔ پھرصرف ایک مہینے میں مریضوں کی تعداد ہزاروںتک پہنچ چکی تھی ۔ اس صورت حال کے پیش نظر ملک میں لاک ڈائون نافذ کرنے کے ساتھ ہر شخص کے لیے ماسک پہننے، 6 فیٹ کا سماجی فاصلہ رکھنے اور ہاتھ ملانے سے گریز کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ۔ وزیر اعظم کے لیے ملک میں لاک ڈائون یا شٹ ڈائون کا فیصلہ کرناآسان نہ تھا۔ دہاڑی دار مزدور اور وہ لوگ جن کا رزق روزمرہ کے معاشی معمولات پر موقوف تھا پیشِ نظر تھا۔
معاشرے کا ایک بڑا حصہ معیشت کے ان معمولات سےروزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے جس کا تعلق روز کمانے اور کھانے سے ہوتاہے۔ مزدور، دکان دار، سیلزمین، ڈسٹری بیوٹرز، ٹرانسپورٹ اور پھیری لگانےوالےنہ جانے کن کن صورتوں میں اقتصادی مشین کے کل پرزے کے طور پر اپنے اپنے حصے کا رزق کماتے ہیں۔ ڈرتھا کہ ان لوگوں کے یہاں فاقے نہ ہوجائیں ۔ زندگی اور موت کی اسی کشمکش میں کورونا وائرس نے ملک میںشب وروز چلنے والی معاشی مشینوں کاپہیہ جام کر دیا ۔ خوش آ ئند امر یہ تھا کہ حکومت پاکستان کےلیے ابتدا میںلاک ڈائون کا فیصلہ کام یابی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوا جس کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔
سعودی عرب نے بھی کورونا وائرس کی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے عمرے ، طواف کے وقتی التواسمیت ایسے تمام اقداماتاٹھائےجن سے انسانی اجتماعات روکے جا سکیں۔یہی وجہ ہے کہ 2020میںپاکستان سمیت تمام دنیاکے مسلمان حج کی ادائیگی سے محروم رہے۔ کوروناوائرس کے تیزی سے پھیلائو کے پیش نظر ابتدا ہی میں پڑوسی ملک بھارت نے حیرت انگیز سرعت کے ساتھ 21 دنوں کا مکمل لاک ڈائون کیا۔ دنیا کی تقریبا اسی فی صد سے زاید پروازیں منسوخ کر دی گئی ۔ ہمارے ملک میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلائو کے پیش نظر تمام بیرونی اوراندرونی پروازیں،ٹرینیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بند کر دی گئی جس سے معیشت کو ناقابل تلافی دھچکا لگا ۔
ملکی سطح پر ایک بڑا لمحہ فکر یہ تھا کہ ہم کیسے اپنی معیشت کو بچا سکتے ہیں اور دوسری غور طلب بات یہ تھی کہ لاک ڈائون کے دوران کم زور طبقے کو کیسے اور کتنا ریلیف دیا جا سکے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے لیے یہ وقت کسی بڑے امتحان سے کم نہ تھاجب حکومت ملک کے معاشی اور سماجی ڈھانچوںکی ازسر نو تشکیل میں شفاف اور منصفانہ پالیسی کی بنیاد بنا کر ترقی کی راہ پر گام زن ہوتی۔
کورونا کے اس قومی بحران میں ایک جانب حکومت اس وقت کوروناسے نمٹنے اور معیشت کی بحالی کےلیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے ، ریاست ، حکومت ور اس سے جڑے ادارے اور این جی اوز (NGOs) اپنے محدود وسائل میں اچھی یا بری صلاحیت کے ساتھ کچھ اچھا کرنے کی بھی کوششیں کر رہے ہیں،لیکن ان تمام حالات کےبرعکس اس وقت ہماری سیاسی جماعتیں کہاںکھڑی ہیں؟ سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میںوہ سیاسی نظام کی حقیقی وارث ہوتی ہیں۔ عوام کی ایک بڑی تعداد سیاسی جماعتوں، ان کی قیادت اور سیاسی کارکنوں سے جڑی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نعروں میںایک بنیادی نعرہ جمہوریت، انسانی حقوق، سمیت حقیقی منصفا نہ اور انصاف پر مبنی معاشرہ بھی ہوتا ہے ۔ کورونا کے بحران سے محض حکومت تن تنہانہیں نمٹ سکتی ۔
ان حالات میں حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں، نون لیگ،پیپلزپارٹی اورجےیو آئی(ف) نے حکومت مخالف اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) بنا کر اکتوبر2020 سے مختلف شہروں میں جلسوں کا انعقاد کیا۔ ان عوامی جلسو ں نے کوروناسے متعلق ایس او پیز کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ کوروناکی دوسری لہرمیں تیزی سے بڑھتے ہوئے کیسسز اور اموات کے پیش نظر حکومت کا کہنا تھاکہ اپوزیشن کو اپنے جلسے تین مہینے کے لیے ملتوی کر دینےچاہئییں۔ لیکن یہ سلسلہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی طرف سے جاری رکھا گیا۔
کورونا کوپہلے تو انسانی صحت کا مسئلہ سمجھا گیا۔ لیکن جلد ہی اس کے معاشی اور سماجی مضمرات بھی سامنے آئے ۔یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پچھلے مالی سال 2019-20 میں معیشت کے استحکام کےلیےجو کاوش اور محنت کی تھی اس ناگہانی آفت سے ان کو شدید جھٹکا لگا۔ اس مشکل وقت میں عوام کی زندگی کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح تھی جس کےلیے ایسے فیصلے اور اقدمات اٹھائے گئے جن سے لوگوں کی زندگی اورذریعہ معاش کم سے کم متاثر ہو۔
طویل لاک ڈائون ، ملک بھر میں کاروبار کی بندش، سفری پابندیوں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں جس کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرحِ نمو اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوئے اوربے روزگاری بڑھنے سے ملکی سطح پرغربت میں مزید اضافہ ہوا ۔
کووِڈ۔اُنّیس،اقتصادی مشکلات اورحکومتی اقدامات:
مالی سال 2019-20 کے دوران پاکستان پر کورونا وائرس کے جو فوری اثرات ظاہر ہوئے ان کی تفصیل یہ ہے۔
1۔ تقریبا تمام صنعتیں اور کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔
2۔جی ڈی پی میں انداز ا 3,300 ارب روپے کی کمی ہوئی جس سے اس کی شرح نمو 3.3 فی صدسے کم ہو کر0.4 فی صد تک رہ گئی۔
3۔مجموعی بجٹ خسارہ جو جی ڈی پی کا7.1فی صدتک تھا،9.1 فی صدتک بڑھ گیا۔
4۔ایف بی آرکے محصولات میں کمی کا اندازہ 900 ارب روپے ہے ۔
5۔وفاقی حکومت کانان ٹیکس ریونیو102 ارب روپے کم ہواہے۔
6۔برآمدات اور ترسیلاتِ زربری طرح متاثر ہوئیں۔
7۔بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔
مالی سال 2020-21میں حکومت نے سماجی و اقتصادی چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور معاشرے کےکم زور اور شدید متاثرہ کاروباری طبقے کی طرف حکومت نے مدد کا ہاتھ بڑھایا تا کہ کاروبار کی بندش اور بے روزگاری کے منفی اثرات کا ازالہ کیا جا سکے۔
کووِڈ۔اُنّیس اور دیگر آفات کے تدارک کے لیے اقتصادی اقدامات:
اس ضمن میں حکومت نے بارہ سوارب روپے سے زاید کے stimulus package کی منظوری دی۔ مجموعی طور پر 875ارب روپے کی رقم وفاقی بجٹ سے فراہم کی گئی جو درجِ زیل کامو ں کےلیے مختص کی گئی:
1۔طبی آلات کی خریداری ، حفاظتی لباس اور طبی شعبے کے لیے 75 ارب روپے مختص کیے گئے۔
2۔150ارب روپے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کم زور اورغریب خاندانو ںاور پناہ گاہ کے لیے مختص کیے گئے۔
3۔200ارب روپے روزانہ اجرت کمانے والے افراد کو کیش ٹرانسفر کےلیے مختص کیے گئے۔
4۔50ارب روپے یوٹیلٹی اسٹور ز پر رعایتی نرخوں پر اشیاء کی فراہمی کےلیے مختص کیے گئے۔
5۔100ارب روپےایف بی آراوروزارتِ تجارت کے لیے مختص تھے تا کہ وہ برآمدکندگان کو ریفنڈز کا اجراء کریں۔
6۔100ارب روپے بجلی اور گیس کے موخر شدہ بلوں کے لیے مختص کیے گئے۔
7۔وزیر اعظم نے چھوٹے کاروبار کے لیے خصوصی پیکج دیا جس کے تحت تقریبا30لاکھ کاروباروں کے3 ماہ کے بجلی کے بل کی ادائیگی کےلیے50ارب روپے فراہم کیے گئے۔
8۔کسانو ں کو سستی کھاد ، قرضوں کی معافی اور دیگر ریلیف کےلیے50ارب روپے کی رقم دی گئ۔
9۔100ارب روپے ایمرجنسی فنڈ قائم کرنے کے لیے مختص کیے گئے۔
10۔100ارب روپےچھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں اور زرعی شعبے کو دیگر ریلیف کے لیے ہیں۔
11۔سالانہ ترقیاتی بجٹ میںکورونا کے سلسلے میں منصوبوں کےلیے 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اس stimulus package سے وفاقی حکومت کے اخراجات میں اضافہ ہوا جس کےلیے وفاقی حکومت کو سپلیمنٹری گرانٹس کی منظوری دینی پڑی۔ فنانس ڈویژن نے متعلقہ اداروں، خاص طور پر احساس ،USC،،NDMA اور FBR کے لیے فنڈز کا بندوبست اوراجراءکیا۔ان اداروں کے stimulus package پر عمل درآمد کرنے کے سلسلے میںبجا لائی گئیں خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
وفاقی بجٹ ایک نظر میں
۰معاشی شرح نمو کو 0.38 فی صد سے بڑھا کر 2 فی صد تک لایا جائے گا۔
۰بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کے 9.6فی صدسے گھٹا کر 7.2 فی صد کی سطح پر لایا جائے گا۔
۰ Inflationیعنی منہگائی11.3فی صدسے کم کرکے 8فی صدتک لائی جا ئے گی۔
۰بیرونی براہ راست سرمایہ کاری FDI میں25 فی صدتک اضافہ کیا جائے گا۔
حکومت نے تمام اہم شعبوںمیںشفافیت، صلا حیت اور احتساب کے عمل میں بہتری لانے کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز شروع کیںجن کی چیدہ چیدہ اصلاحات کی تفصیل کچھ یوں ہے:
بجٹ 2020-21کی حکمت عملی کے نمایاں خدوخال یہ ہیں:
۰وزیر اعظم کی قیادت میں خصوصی اقدامات اور منصوبوں مثلا کام یاب جوان پروگرام ، صحت کارڈ ، بلین ٹری سونامی وغیرہ کا تحفظ کیا گیا ہے۔
۰معاشرے کے کم زور اور پس ماندہ طبقات کی مدد کےلیے احساس پروگرام کے تحت سماجی اخراجات کا عمل جاری رکھنا ۔
۰کورونا سے متعلق اخراجات اور مالیاتی خسارے کے مابین توازن قائم رکھنا۔
۰کورونا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کےلیے اگلے مالی سال میں بھی عوام کی مدد جاری رکھنا۔
۰ترقیاتی بجٹ کو موزوں سطح پر رکھناتاکہ اقتصادی نمو میں اضافےکے مقاصد پورے اور روزگار کے مواقع پیدا ہو سکیں۔
۰تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات،بہ شمول نیا پاکستان ہائوسنگ پراجیکٹ کےلیے وسائل مختص کیے گئے ہیں ۔
۰ٹیکسوں میںغیر ضروری ردبدل کے بغیر محاصل کی وصولی میںبہتری لانےکے اقدامات اٹھائےجا رہے ہیں۔
۰خصوصی علاقوں، یعنی سابقہ فاٹا، آزاد جموںو کشمیر اور گلگت بلتستان کےلیے بھی فنڈ رکھے گئے تاکہ وہاں ترقی اوراقتصادی نموکا عمل یقینی بنایا جاسکے۔
۰ملک کے دفاع اور داخلی تحفظ کو خاطر خواہ اہمیت دی گئی ہے۔
۰کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی یقینی بنائی جائے گی۔
۰ آئی ایم ایف کے پروگرام کو کام یابی سے جاری رکھنا ۔
۰ این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کی جائے گی۔
معیشت کی بحالی کے لیے مالی اقدامات
عوام اور کاروباری طبقے کو مالی زرایع فراہم کرنے اور آسانی پیدا کرنے کےلیے بنیادی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
٭پالیسی ریٹ میں 5.25فی صدکی بڑی کمی کی گئی جو 13.25 سے کم کر کے 8 فی صدکر دی گئی۔
٭کاروبار کے Payroll Loan میں تین ماہ کی شرح سود میں4فی صدکی رعایت دی گئی تاکہ بے روزگاری سے بچا جا سکے۔
٭انفرادی اور کاروباری قرضوں کے لیے بینکوں کو اضافی 800ارب روپے قرض دینے کی اجازت دی گئی ہے جس کے لیے قرض کی حد میں اضافہ کیا گیا ہے۔
٭اصل زر کی ادائیگی ایک سال کےلیے موخر کر کے سہولت بہم پہنچائی ہے۔
اقتصادی منظر نامہ
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق جوںجوں معیشت مالی سال 2020کے اختتام کی طرف گئیے کورونا وائرس کی وجہ سے کئی اقتصادی محازوں پر دشواریوں کی بناءپر غیر یقینی کیفیت کا سامنارہا۔ سب سے زیادہ تشویش کا باعث امراس مرض کے پھیلائو میں تیزی سے اضافہ ہے۔ روزبہ روز مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور یہ واضح ہو رہا ہے کہ وبا اپنے نقطہ عروج پر نہیں پہنچی ہے۔ اس بڑھی ہوئی غیر یقینی کیفیت کی عکاسی اسٹیٹ بینک کی حالیہ سرویز میں بھی ہوئی ہے ۔ مئی 2020 کے اعتمادِ صارف سروے میں اعتمادِ صارف اور متوقع اقتصادی حالات دونوں میں تیزی سے بگاڑ نظر آیا۔ مارچ 2020میں ان میں بہتری آئی تھی۔
اسی طرح اپریل 2020 میں مجموعی کاروباری اعتماد اپنی تاریخی پست ترین سطح پر تھا۔اہم ترین بات یہ ہے کہ پاکستان اس معاملے میں دوسروں سے الگ تھلگ نہیں کیوں کہ اقتصادی غیریقینی کا عالمی اشاریہ بھی اپریل 2020 میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھا جس سے پتا چلتا ہے کہ موجودہ حالات میں عالمی سطح پر غیر یقینی کیفیت پائی جاتی ہے ۔
تا ہم آگے چل کرمعاشی سرگرمیوں میںبہ تدریج بہتری کے امکانات ہیں، کیوں کہ حکومت نےلاک ڈائون کو نرم رکھا ہے اوربیش تر شعبوں میںسرگرمیاں محدود پیمانے پر جاری ہیں۔ اس کے نتیجے میں رسدی لحاظ سے بحالی آسکتی ہے۔ گو کہ ٹڈی دل کے حملوں سے شعبہ زراعت کا منظر نامہ خطرےسے دوچارہے، جس کے خریف سیزن کی پیدوارپر ناساز گار اثرات پڑ سکتے ہیں۔ تاہم مالی سال 2021کے دوران حقیقی جی ڈی پی کا 2.1 فی صد کا ہدف حاصل کرنےکےلیے مضمرطلب میں متوازی بہتری درکار ہو گی۔
اس کے لیے مالی سال 2120ء کے بجٹ میں پی ایس ڈی پی کی مختص رقوم کا موثراستعمال درکارہوگا۔اسٹیٹ بینک کی اسکیمز کاروباری اداروں اور صارفین،دونوں کی سیالیت کی ضروریات پورا کرنےمیںمدددےرہی ہیں۔ان اسکیمز کی بلند طلب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث معاشی عاملین کو شدید دبائو کا سامنا ہےاوربڑھتی ہو ئی منظوریاں سیالیت کی امداد میں اضافہ کر رہی ہیں جس سے طلب و رسد پر وبا کی وجہ سے پڑنے والے منفی اثرات کو محدود کرنے میں مدد ملے گی ۔
مالیاتی محازپرجب کورونا وائرس کے دھچکےکے اثرات ظاہر ہونےلگے توگزشتہ سال کے ابتدائی حصے میں حاصل شدہ استحکام زائل ہو گیا ۔ مالی سال 2020ء کی چوتھی سہ ماہی کے دوران اخراجات میں اضافہ ہوااور محاصل کی نمو بہت گھٹ گئی۔ چناچہ تخمینہ ہے کہ مالی سال 2020ء۔2021کےلیے مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 9.0فی صد تک پہنچ جائے گاجوجولائی تا مارچ مالی سال 2020ء میں4.0فی صد تھا ۔ اب جب ہم مالی سال 2021میں قدم رکھ چکےہیں،یہ امکان ہے کہ معاشرتی واقتصادی معاونت کے بے حد ضروری پیکج پر عمل درآمد سے آئندہ مہینوں میں حکومتی اخراجات بلند رہیں گے۔
تاہم مالی سال 21ء کےلیے6.57کھرب روپے کے مجموعی محاصل کا ہدف ہمت آزماہے، کیوںکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پست معاشی سرگرمی کے ماحول میں مالی سال 20 ء کے مقابلے میں خاصی نمو درکار ہو گی ۔چوں کہ متوقع طورپر محاصل کا بڑا حصہ جاری اخراجات ، جیسے سودکی ادائیگیوںاور پنشن میں کھپ جائے گا اس لیے حکومت کو مالی سال 2021کے دوران پی ایس ڈی پی کے اخراجات کو بجٹ کے مطابق رکھنے کو یقینی بنانے کے ساتھ قرض کے انتظام کی موثر پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔
منہگائی کا منظر نامہ
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق منہگائی کا منظر نامہ حوصلہ افزا ہے،تاہم خطرات سے پاک نہیںہے۔ پست ملکی طلب آئندہ مہینوں میں عمومی منہگائی بہ لحاظِ صارف اشاریہ قیمت کے رجحان کو مزید نرم رکھنے اور مہنگائی میں استحکام قائم رکھنے میںمعاون رہے گی ۔ نتیجتا مالی سال 2021ء کے دورانتوقع ہے کہ منہگائی 7.0 تا9.0 فی صدکی حدود میں رہے گی ۔ تا ہم پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے یہ خطرہ پیدا کر دیا ہے کہ منہگائی کا رجحان ان حدود کی بالائی سطح کی طرف ہو گا۔
اگرچہ پست عالمی طلب آنے والے مہینوں میں تیل کی بین الاقوامی قیمتیں کم رکھ سکتی ہے، تاہم اوپیک کے ارکان کی جانب سے تیل کی رسد میں کسی بڑی کٹوتی پر اتفاق ہوا تومنہگائی اوراس کےمستقبل کی توقعات، دونوں کے بڑھنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ٹڈی دل کے مزید حملے ہوئے یا کورونا وائرس کےبا عث رسدی زنجیر میں تعطل آیا تو غذائی تحفظ کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو بلند شرحِ منہگائی پر منتج ہو گا۔