• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب عدالت میں شہباز شریف کی پیشی کے وقت وہاں موجود پولیس اہلکاروں، عدالتی عملے، میڈیا کے نمائندگان اور باقی کیسوں میں آئے ہوئے لوگوں کے مختلف تاثرات سننا میرا بہترین مشغلہ ہے۔ 

پچھلی پیشی پر ایک خاتون پولیس والے کو کہہ رہی تھی کہ ’’جان چھوڑ دو شہباز شریف کی، کوئی قصور نہیں اُس کا، اُس کی وجہ سے مجھے آشیانہ میں گھر ملا تھا اور آشیانہ میں سب رہنے والے شہباز شریف کو دعائیں دیتے ہیں‘‘ اور بیچارہ پولیس والا چپ تھا کیونکہ نہ تو وہ شہباز شریف کو رہا کر سکتا تھا اور نہ ہی اُس کے اختیار میں یہ تھا۔

 آشیانہ کا ذکر آیا تو مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا، وزارتِ اعلیٰ کے دور میں شہباز شریف خاندان والوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ اُن کے باورچی نے بڑے خوش ہوکر بتایا کہ اُس کو قرعہ اندازی میں آشیانہ میں گھر الاٹ ہوا ہے، یہ سننا تھا کہ شہباز شریف نے اپنے سیکرٹری کو بلایا اور کہا کہ اِن کی مکمل معلومات لیں اور اِن کے گھر کی الاٹمنٹ کینسل کر دیں کیونکہ کہیں یہ نہ ہو کہ لوگ کہیں کہ شاید ہمارا باورچی ہونے کی وجہ سے اِس کو گھر ملا ہے اور ساتھ ہی اُنہوں نے باورچی کو ذاتی پیسوں سے اُسی مالیت کا گھر لے کر دیا۔ 

مجھے یہ واقعہ اُن کے باورچی نے کچھ دن پہلے سنایا اور پوچھا کہ کیا اس ملک میں کہیں کوئی عدل کا نظام ہے؟ اگر ہے تو شہباز شریف ابھی تک جھوٹے الزامات کی سزا کیوں بھگت رہا ہے؟

 باورچی نے بتایا کہ شہباز شریف نے جب میرا گھر کینسل کیا اور مجھے ذاتی پیسوں سے ایک گھر لے کر دیا تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیسا شخص ہے؟ 

کیونکہ میں تو یہ امید لگا کر بیٹھا ہوا تھا کہ کسی اور رشتہ دار یا کسی دوست کو گھر الاٹ کروائوں کیونکہ میں شہباز شریف کا باورچی اور شہباز شریف ایک پاور فل وزیراعلیٰ تھا لیکن یہاں الٹا میرا گھر کینسل ہو گیا کہ کہیں اقربا پروری کا الزام نہ آئے۔ ایک واقعہ شہباز شریف کے پرانے ڈرائیور نے بھی سنایا وہ تقریباً 30برس سے اُن کے ہاں کام کر رہا تھا اور وہ بھی ذاتی اور پرانا خاندانی ڈرائیور ہونے کے باعث شہباز شریف کے میرٹ کا ’’ڈسا‘‘ ہوا تھا۔ 

ڈرائیور نے بتایا کہ اُس کی بیٹی نے ماسٹر کی ڈگری لی اور ’’ایجوکیٹر‘‘ کی نوکری کے لئے اپلائی کیا ہوا تھا۔ 

ٹیسٹ میں پاس ہو گئی تو انٹرویو والے دن اُس کی بیٹی نے انٹرویو لینے والوں کو بتایا کہ وہ شہباز شریف کے ذاتی ڈرائیور کی بیٹی ہے تو انٹرویو لینے والوں نے اُس کو کہا کہ آپ کا میرٹ میں نام ایک آدھے نمبر سے رہ رہا ہے، بیٹی نے گھر آکر باپ کو بتایا اور باپ شہباز شریف کو جانتا تھا کہ یہ میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، اِس لئے اُس نے شہباز شریف صاحب کی بیٹی کو کہا کہ میں 30سال سے آپ کے پاس ہوں اور میرا صرف یہ ایک کام کروا دیں، شہباز صاحب کی بیٹی نے بڑے مان سے کہا کہ ابو جی حاجی ڈرائیور کی بیٹی کے لئے صرف آپ کے سیکرٹری کا ایک فون ہی کافی ہے اور اُس بیچاری کی زندگی بن جائے گی تو شہباز شریف نے آگے سے کہا کہ اُس کو میں پرائیویٹ نوکری لگوا دیتا ہوں لیکن سرکاری نہیں۔ 

ڈرائیور قصہ سنانے کے بعد مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا فائدہ ہوا؟ اپنی بیٹی کو بھی ناراض کیا، مجھے بھی اور آج تمام میرٹ اور ایمانداری بھی کسی کام نہیں آئی؟ اُن کو ایسے قید میں رکھا ہے، اُن پر میڈیا پر ایسے الزام لگائے جاتے ہیں جیسے کوئی بہت بڑے مجرم ہوں۔ 

میں اُس ڈرائیور اور باورچی کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ گرفتاری کے دن شہباز شریف نے کیوں کہا تھا کہ ’’میں اپنا معاملہ اپنے ﷲ پر چھوڑتا ہوں‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین