کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ مظاہرین وزیراعظم سے مل کر اپنا احتجاج اور مطالبات ان کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، وزیراعظم ہر صورت کوئٹہ آئیں گے اگر ابھی آجائیں تو بہتر ہوگا،معروف ماہر معیشت اکبر زیدی نے کہا کہ نئے مالی سال میں معیشت کے حوالے سے کوئی بہتری نظر نہیں آتی،معروف بزنس مین عارف حبیب نے کہا کہ اتنی کم شرح پر قرضے کی سہولت کی وجہ سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے،سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ پی ڈی ایم کی بڑی پارٹیوں نے بیک ڈور چینلز کھولے ہوئے ہیں، اس سے تاثر ملتا ہے حکومت ختم ہوچکی اور وہ نئے سیٹ اپ میں اپنا شیئر لینے کیلئے ایک دوسرے کیخلاف سازشیں کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے کا وزیراعلیٰ بہت سے ایسے کام کرسکتا ہے جو وزیراعظم یا کوئی وفاقی وزیر نہیں کرسکتا، دھرنا مظاہرین کے پاس گیا تو ان سے پوچھا آپ وزیراعظم کے آنے پر اصرار کیوں کررہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ آصف زرداری کے دور میں دہشتگردی کا واقعہ ہوا تو وفاقی حکومت نے ان سے کچھ وعدے کیے تھے، ہم ان 23نکات پر پیشرفت سے متعلق سوال وفاقی حکومت سے کرنا چاہتے ہیں، مظاہرین وزیراعظم سے مل کر اپنا احتجاج اور مطالبات ان کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ جام کمال خان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے وفود سے ملاقاتیں کررہے ہیں، ہم کوشش کررہے ہیں کہ لواحقین شہداء کی تدفین کیلئے تیار ہوجائیں، وزیراعظم آئیں گے تو ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھ دیں، لواحقین مان جاتے ہیں تو وہ دفنانے کیلئے راضی ہیں، وزیراعظم ہر صورت کوئٹہ آئیں گے اگر ابھی آجائیں تو بہتر ہوگا، پچھلے تین چار سال میں دہشتگردی میں کافی کمی آئی ہے، ایک ڈیڑھ سال میں ہزارہ برادری کی کئی تقریبات میں گیا ہوں، بلوچستان میں ملک دشمن عناصر دہشتگردی کی کارروائیاں کرتے ہیں، ہمیں اپنی تیاری بہتر کرتے ہوئے اپنے علاقوں کو مزید محفوظ بنانا چاہئے۔معروف ماہر معیشت اکبر زیدی نے کہا کہ رواں سال کے مقابلہ میں 2020-21ء میں کچھ بھی ہو بہتر ہی ہوگا، معیشت کی اتنی بری حالت سے تھوڑی بہتری لانا کوئی کمال کی بات نہیں ہے، معیشت کی بحالی کا دارومدار کورونا وائرس ویکسین کی جلد از جلد فراہمی پر ہے،نئے مالی سال میں معیشت کے حوالے سے کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ اکبر زیدی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم حکومت چلانے میں اپنی ناتجربہ کاری کا خود اعتراف کرچکے ہیں، اگلے چار پانچ مہینے میں یورپ اور برطانیہ میں کورونا میں بہتری نہیں آئے گی، برطانیہ دو مہینے کیلئے لاک ڈاؤن ہوگیا ہے جبکہ جرمنی بھی لاک ڈاؤن ہونے جارہا ہے، پاکستان کچھ بھی کرلے جب تک بیرونی مارکیٹیں نہیں کھلتیں ہم کچھ نہیں کرسکتے، کورونا وائرس کو معیشت کی زبوں حالی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، کورونا وائرس آنے سے پہلے بھی ملکی معیشت بہت برے حال میں تھی، اس حکومت کے ڈھائی سال میں بھی ترقی کی شرح 1.9فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی۔معروف بزنس مین عارف حبیب نے کہا کہ رواں مالی سال ترقی کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کا ٹارگٹ حقیقی اور قابل حصول لگتا ہے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کے اعداد و شمار بہت اچھے ہیں جو آگے مزید بہتر ہوں گے، ایکسپورٹ اور ترسیلات زر میں اضافہ معیشت کی بہتر ی کے حق میں ہے، اسٹیٹ بینک نے کورونا کے بعد نئی سرمایہ کاری کیلئے بہت کم شرح پر قرضے کی سہولت دی ہے، اتنی کم شرح پر قرضے کی سہولت کی وجہ سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ پی ڈی ایم کی بڑی پارٹیوں نے بیک ڈور چینلز کھولے ہوئے ہیں، اس سے تاثر ملتا ہے حکومت ختم ہوچکی اور وہ نئے سیٹ اپ میں اپنا شیئر لینے کیلئے ایک دوسرے کیخلاف سازشیں کررہے ہیں، پیپلز پارٹی کے جلسے پی ڈی ایم کی تحریک کا حصہ نہیں تھے، پی ڈی ایم جماعتوں کی حکمت عملی میں کمزوریاں تھیں، حکومت کے بڑے فیصلوں کا مقصد اپوزیشن تحریک ناکام بنانا ہے، وزیراعظم کی ترجیح دیکھیں ترجمانوں کے اجلاس میں کوئٹہ دھرنے کے بجائے پیپلز پارٹی پر اٹیک کرنے کی بات کررہے ہیں، عمران خان کو شک ہے پیپلز پارٹی ایسے گیم پلان کا حصہ بن رہی ہے جس کا حکومت کو نقصان ہوگا۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے بنوں میں بڑا جلسہ کر کے ثابت کردیا وہ ن لیگ اور پی پی کے بغیر بھی جلسے کرسکتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن کے قریبی لوگ کہتے ہیں ہمیں اسلام آباد لانگ مارچ کیلئے پیپلز پارٹی کی ضرورت نہیں ہے، پی ڈی ایم کا حصہ بنے رہنا پیپلز پارٹی کے مفاد میں ہے، پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں رہے گی تب ہی اس کی بارگیننگ پوزیشن بنے گی۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار فہد حسین نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکمت عملی کمزور ہوگئی ہے ،پی ڈی ایم جنوری میں حکومت گرانے کا ہدف حاصل نہیں کرسکی، ن لیگ اور جے یو آئی ف کے اپنے مفروضے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کسی اور ڈگر چل رہی تھی، اپوزیشن کی حکومت کو استعفیٰ دینے کیلئے 31جنوری کی ڈیڈ لائن غیرفعال ہوگئی ہے، حکومت کو اگر کوئی خطرہ تھا تو وہ بہت حد تک کم ہوگیا ہے۔ فہد حسین کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ہوم ورک درست نہیں کیا، پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اپنے مفادات ایک دوسرے میں ضم نہیں کرسکیں، حکومت کے کامیاب بیانیہ سے وزیراعظم کے استعفے کا معاملہ اپوزیشن کے استعفوں پر چلا گیا ہے، پی ڈی ایم تحریک میں نظریاتی عنصر ختم اور پاور پالیٹکس آتی نظر آرہی ہے، اپوزیشن کی تحریک کمزور ہوئی تو حکومت اسے ہی جیت سمجھے گی۔