پاکستان کے عوام کے لیے 2020 ء کا یہ تحفہ ہے کہ پاکستان کے سیاست دان جو کچھ کہتےہیں خود اس پر عمل کےپابند نہیں ،یہی وجہ ہے کہ بہت ساری باتیں جو جمہوریت کی بقا ءکے لیے کی جانی چاہیے ،سیا سی جما عت کے دفتر کے صدر دروازے پر ہی ختم ہو جا تی ہیں ،اس کے بعد ذاتی مفادات کا حصول اور اس کے لیے تمام حربوں کا استعمال کیا جا نا ہدف اول تصور ہوتا ہے ، عوام کا نام اور ان کے مفادات کا تحفظ نام نہاد خوش کن نعروں کے سوا کچھ نہیں، گیارہ جما عتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے 31جنوری 2021ء تک وزیر اعظم عمران خان سے استعفیٰ مانگا ہے ، وزیراعظم کے مستعفی نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے پارلیمنٹ ہائوس ،آبپارہ چوک اور مری روڈ راولپنڈی کے حساس ترین سیکورٹی کمپلکس کے باہر دھر نا دینے کا دعویٰ کیا ہے۔
جس پر آئین سے محبت کرنے والوں کی رائے ہےکہ جو لوگ پارلیمنٹ کا حصہ اور عوام کے منتخب کردہ ہونے کے دعویدار ہیں، انہیں آئینی تقا ضوں کی با لا دستی، وزیراعظم کے استعفے اور حکومت ختم کرنے کے طریقہ کار کو نہیں بھولنا چاہیے ،وزیر اعظم جن لوگوں کا منتخب کردہ ہے و ہی اسے اپنے ووٹ کے ذریعے اس عہدے سے اتارنےکے مجاز ہیں،پڑھے لکھے اور مہذب معاشروں میں یہ سمجھا جاتا ہےکہ پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں وزیر اعظم ،وفاقی وزراء اور ارکان جھوٹ نہیں بولتے،ان کے منہ سے نکلنے والے تمام الفاظ صرف اور صرف حقائق پر مبنی ہو تے ہیں مگر ہماری قومی بد قسمتی سمجھیے کہ نا اہل قرار دیئے گئے۔
وزیراعظم کا سپریم کورٹ میں دفاع کرتے ہو ئے پاکستان کے اٹارنی جنرل نے کہہ دیا کہ پارلیمنٹ میں دیئے گئے بیانات سیاسی ہوتے ہیںجن کا درست ہونا ضروری نہیں، حالا نکہ عدالت عظمیٰ نے سید یوسف رضا گیلانی اور محمد نواز شریف کو سچ نہ بولنے کی پاداش میں وزارت عظمیٰ کے منصب سے نااہل قرار دیا ہے ،سیا سی تجزیہ نگاروں کی رائے ہےکہ حکومت اور اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حقائق سے ہٹ کر اتنی باتیں کی ہیں کہ عوام کا ان سے اعتبا ر اٹھ گیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ فریقین بیان با زی نہ کریں اپنے عمل اور کردار کے ذریعے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں اور انہیں مہنگائی کی عفریت سے بھی نجات دلائیں۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہی اجلاسوں میں اپوزیشن رہنما ئوں خصوصاً مولانا فضل ا لرحمان ، سابق وزیر اعظم نواز شریف ،سابق صدر مملکت آصف علی زرداری ،چیئر مین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اور (ن) لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے آرمی چیف ،آئی ایس آئی چیف ،سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تنقید کرتے ہوئے اخلاقی اور قانونی تقاضوں کو اسی طرح روندا جس طرح پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان پارلیمنٹ کے باہر نواز شریف اور ان کے کرتا دھرتا وزراء کی ’’شان ‘‘کو بلند فرمایا کرتے تھے ، وزیر اعظم بد قسمتی سے اپنے زعماء سے خطاب کرتے ہو ئے اس حقیقت کو بھی بیان کر گئے کہ انہیں تو یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ حکومتی مسائل سے کیسے نمٹنا ہے، حکومت ملنے سے پہلے حکومت کرنے کی تربیت بھی ہونی چاہیے، اپوزیشن کی خواہش ہے کہ وزیر اعظم عمران خان چونکہ بر ملا اعتراف کر چکے ہیں،لہٰذا 31 جنوری تک انہیں اقتدار چھوڑ دینا چاہیے اور نئے غیر جانبدارانہ انتخابات کے لیے فریقین میں مذاکرات شروع ہو جانے چاہئیں ،گرینڈ مذاکرات میں ہی پاکستان کا مستقبل ہے ،سیاسی رابطے مفاہمتی عمل کو آگے بڑھا سکتے ہیں ۔
جمہوریت کو حقیقی شکل میں لانے کے لیے جمہوریت کے تمام ستونوں میں نہ صرف ہم آہنگی ضروری ہے بلکہ ایک دوسرے پر اعتماد بھی ضروری ہے ، سیا سی گرو کہتے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات کے نتا ئج پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے پاکستا ن دو لخت ہو گیا اور مشرقی پاکستان میں مقیم بڑی اکثریت نے اقلیت مغربی پاکستا ن سے الگ ہونا کا اعلان کر کے ثا بت کر دیا کہ جمہوری تقاضوں کو نظرانداز کر کے طاقت کے ذریعے محبت اور بھائی چارہ قائم نہیں رکھا جا سکتا ، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ وطن عزیز جو جنو بی ایشیا میں آبادی کے لحا ظ سے سب سے بڑی ایٹمی مملکت میں سیا سی انتشار دشمنوں کو نہ صرف خوش کیے ہو ئے ہیں بلکہ دوست پریشان بھی ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہےکہ عمران خان حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کرنے والوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا ضروری ہے ،ہمارے سیا سی نفاق سے دشمن فائدہ اٹھا نے کی کوشش یقیناً کر رہا ہو گا ،طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والی دونوں بڑی جما عتوں اور مذہبی پلیٹ فارم پر مضبوط سیا سی گرو مولانا فضل الرحمان کو بھی سیا سی جدوجہد میں سخت لہجے کو بر قرار نہیں رکھنا چاہیے ،ہم نے یہیں رہنا ہے اداروں سے جھگڑنے کی بجا ئے پر خلوص گفتگو سے آگے بڑھیں،معاملہ حل ہو جا ئے گا۔
سیاسی حلقوں کا کہناہےکہ باپ بیٹی کو سیا سی لیڈر بنا نے کی جدوجہد میں مصروف ہے جبکہ اس کے اپنے ہی اسے سیاسی طور پر ڈبو نے میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کر رہے ہیں، سیا سی گرو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ ہے اپوزیشن کی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی، مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز جو چاہتے ہیں پیپلز پارٹی کی قیادت اس پر عمل پیر ا نہیں ہو سکتی ،پس منظر میں سیاسی رابطے موجود ہیں، بظاہر معا شی عشاریوں کو مثبت دیکھا یا جا رہا ہے ،حا لا نکہ موجودہ حکومت پچھلی دونوں حکومتوں سے زیادہ قرضے لے چکی ہے اور عملاً کیا بھی کچھ نہیں ہے ۔