• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صائمہ نورین بخار ی

زندگی ماہ و سال کے گزرنے کا نام ہےزندگی کی کتاب میں خوشیوں خوشبووں اور خوش نصیبیو ں کے ابواب جتنے زیادہ ہوں کم لگتے ہیں مگر دکھ اور غم کے چند اوارق بھی بہت اندوہ ناک ،ناقابل برداشت اور ناقابل فراموش ہوتے ہیں سال دوہزار بیس پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے نا قابل فراموش سال تھا،جو زندگی و موت کی جنگ کاسال تھا ،جو انسان کی حقیقت کرونا وبا سے لڑتی ہوئی انسانیت،طاقت ور اقوام عالم کی بے بسی ،گلوبل ویلج کی کم مائیگی ماحولیاتی صفائی کے عجب قدرتی طریقوں کو آشکار کر گیا۔

یہ سال سب کے ساتھ خواتین کے لیے بھی ایک بےحد مشکل سال تھا۔ خوف و ہراس کی صورت کو کرونا وبا نے پوری دنیا میں پھیلاکر سب کے اعصاب شکن کیے ۔اس خوف نے خواتین کو بھی بری طرح متاثر کیا ۔گھروں میں لاک ڈاون کی اصطلاح پہلی مرتبہ سمجھ میں آئی اور سب کی ذمہ داری ایک خاتون کے سر پر آن پڑی ۔شوہر ،بچے، ساس، سسر، گھر بار سب کی دیکھ بھال ناز برداری، تیمارداری اور اوپر سے کام کاج کے لیے مددگار ملازم طبقے کی چھٹی انتظامی لحاظ سے بے حد مشکلات کھڑی ہوگئیں ۔کورونائی سال 2020ءنے زندگی کے ہر شعبے کو ہلا کر رکھ دیا۔

رونق بھرے شہر وں میں کوئی رونق باقی نہ رہی سرد ہوا کی خوف زدہ سسکیوں میں دو ہزاربیس کاسال نئی اُمیدوں اور تمناؤں کے سورج کےساتھ زندگی کے اُفق پر نمودار ہوا تھا وہ موت مایوسی بے بسی کی گہری دھند میں کھوگیا وہ دمکتا جگمگاتا آسماں ۔۔وہ حسین قوس قزح ۔وہ کہکشاں اک داستاں بن کر رہ گئی زندگی کے نغمے الاپتے پرندے خالی درختوں میں سہم کر رہ گئے ۔انسانی زندگی ایک بہت بڑا المیہ نظر آنے لگی ،بظاہر مضبوط نظر آنے والے انسان سانس کھینچتے ہوئے زندان کے قیدی بن کر زندگی کی بازی ہارنے لگے ۔

دنیا ستاروں سے چنا ایک سائبان معلوم ہونے لگی ،جس میں سب زندگی کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے۔تعلیم کا ایک سال صحت حفاظت کی نذر ہوگیا اور گھر میں خاتون خانہ کی ذمہ داری دوگنی ہوگئی ۔آن لائن کلاسسز تعلیم کا طریقہ عام ہوا ۔اور زندگی چار دیواری میں محدود ہوکر مسائلوں کا انبار لگنے لگی ۔ غیر یقینی صورت ِحال اور بڑھتی ہوئی بے روز گاری نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کردئیے اور کرونا کے باعث بڑھتی ہوئی اموات نے زندگی کو ایک انجانے شہر درد میں پہنچا دیا۔ہری بھری شاداب ہنستی بستیاں اُجڑنے لگیں۔ اس کرب ناک صورت حال نے زندگی ہی بدل ڈالی۔

خواتین نےگھر کے مردوں کی بے روزگاری کا حل ان کے ساتھ مل کر نکالنا شروع کردیا ۔آن لائن تعلیم وتربیت باورچی خانے طبی خدمات سب انٹرنیٹ کی دنیا میں سمٹ آئے ۔برے دنوں کے بعد اچھے دن بھی آتے ہیں، مگر یہ برے دن کٹیں گے کیسے ،تاحال یہ بہت مشکل ہےوہ زندگی جو حسن محبت تخلیق کی سچائی کے گرد گھوم رہی تھی اور دنیا بہت تیز بھاگ رہی تھی ،مگر اب ایک سال خاموشی ،تنہائی ،اداسی، موت، قرنطینہ ،لاک ڈاون اور ویکسین کے خیالوں سے آشنا ہوئی ۔2020ء ان عظیم لوگوں کی خدمات سے لبریز رہا ہے۔ جنہوں نے کورونا سے بچاؤ کی جنگ میں فرنٹ لائن سپاہی کے فرائض سر انجام دئیے ۔اور جان سے گزر گئے۔

خزاں اور سرد رت کے ملاپ پر زندگی کی رمق جاگ رہی ہے جو خواتین ایس او پیز پر خود بھی عمل پیرا ہیں اور اپنے پیاروں اور دوسروں کو ترغیب دے رہی ہیں ان کے لیے نیا سال نئے حوصلے کامتقاضی ہے ۔شادی بیاہ خوشی غمی میں اپنی ترجیحات لازمی مرتب کیجئے ۔خود کو منظم کریں، تاکہ آپ کا گھر منظم ہو سکے ۔بچوں کا حوصلہ بلند کیجئے ،تا کہ ان ذہنوں میں آنے والے سال کے خواب روشن ہوں، زندگی اپنی اہمیت جتلا چکی ہے ۔صفائی ستھرائی اپنی ضرورت سے بڑھ کر احساس دلا چکی ہے بیماری کاخوف اس سے بچاؤ کی جگہ لے چکا ہے۔بے روزگاری کیا ہوتی ہے سب کو احساس ہوچکا ہے ۔باہمی ربط و محبت اور معاشرتی ذمہ داری کیا ہوتی ہے کچھ حد تک مفہوم سمجھ آچکا ہے ۔زندگی درد کے دائرے سے نکل کر سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ایک در بند ہورہا ہے تو سو در دکھلنے کی اُمید ہے ۔

سوچ میں بہتری اور زندگی کی اہمیت کا احساس سال گذشتہ میں جس طریقے سے اُجاگر ہوا وہ اس سےپہلے کسی سال کے اختتام پر نہیں تھا ۔زندگی کو سمجھ کر جینا خواتین کی پہلی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔اُمید کا دامن بہت وسیع ہے اور اس سے بھی وسیع دعا کا دامن ہے تو آئیے نئے سال کے ابتدائی دنوں میں ہی دعا گو ہوتے ہوئے اپنے غموں کو بھلا کر آس کے دیپ جلائیں۔جو بچھڑ گئے وہ آسمان کی وسعتوںمیں کھو گئے ۔

انہیں تتلیوں اور جگنوؤں کے دیس جانا تھا ۔اب رات کے صحرا میں بھٹکتی چاندنی آنکھوں کی کرن بن کر ان کو ڈھونڈے گی ،مگر جو زندہ ہیں ان کے لیے ہمیں ایک صاف ستھرا محبت کا نگر آباد کرنا ہےمجھے یقین ہے کہ دو ہزار بیس کی یادیں اگر اشکبار تھیں تو آنے والے سال کی بہار یں مشک بار ہوگی ۔

ہم نے پلکوں پر سجا رکھے ہیں اشکوں کے چراغ

ایک میلہ سا لگا ہے روشنی کے شہر میں۔۔۔

تازہ ترین