پشاور(جنگ نیوز) وفاقی حکومت کو قانون ساز اداروں پر تمباکو کی لابی کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ٹیکس کے فوائد دینے سے گریز کرنے کے لئے سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔اس حوالے سے پائیدار ترقیاتی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے تحقیقی مطالعے ’’علاقائی تمباکو ٹیکس چھوٹ اور اس کے اثرات برائے صحت ‘‘کہا گیا کہ سگریٹ سمیت تمباکو مصنوعات کے خلاف قوانین کو بغیر کسی امتیاز کے خط اور روح کے ساتھ نافذ کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ سگریٹ کی غیر قانونی تجارت سے متعلق تمباکو کمپنیوں کے اعدادوشمار کے جھوٹے دعوے کو بھی مسترد کرنا چاہئے اور ان کو ٹیکس وصول کرنے میں کسی بھی قسم کی حمایت کی پیشکش نہیں کرنی چاہئے۔تحقیق میں تجویز کیا گیا کہ حکمران طبقہ کو بھی تمباکو کی صنعت سے دوری رکھنی چاہئےورنہ تمباکو کی لابی اتنی طاقتور ہو جاتی ہے کہ وہ غیر قانونی تجارت کے نام پر ٹیکس میں چھوٹ کا مطالبہ کرتی ہے۔ٹیکس سے بچنے کے اعدادوشمار پر حکام کو شبہ ہے جبکہ کھپت کے اعدادوشمار سالانہ 86.6 بلین سگریٹ پر کھڑے ہیں لیکن صنعت کے سرکاری اعداد و شمار صرف 55 ارب تک محدود ہیں۔ باقی کا الزام عام طور پر ناجائز تجارت پر لگایا جاتا ہے لیکن غیر قانونی تجارت کا حجم 9 فیصد سے زیادہ نہیں جو کمپنیوں کے ذریعے بتائے جانے والے 41 فیصد کے اعداد و شمار سے کہیں کم ہے۔ پاکستان میں سگریٹ کے پیک کی اوسط قیمت خطے میں سب سے کم رہ گئی ہے جس سے تمباکو کی صنعت کے ذریعے نہ صرف آمدنی کی پیداوار متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ صحت کو سخت نقصان کا بھی سبب بنتا ہے۔ٹیکس چوری پر قابو پانے کے لئے یکساں نظام کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے ‘حکومت تمباکو کمپنیوں کو ٹیکس چوری کے مواقع فراہم کرنے والے درجے کے نظام کو ختم کرے۔ یک جہتی نظام سے نہ صرف محصولات کی پیداوار کے طریقہ کار کو تقویت ملے گی بلکہ ناجائز تجارت کے مسئلے سے بھی مؤثر طریقے سے نمٹا جاسکتا ہے۔پاکستان میں 22 ملین تمباکو استعمال کرنے والے افراد جن میں 60 فیصد نوعمر ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی طرف سے سالانہ بنیاد پر زبانی کینسر کے 15 لاکھ واقعات کی اطلاع دی جاتی ہے۔