• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سانحات کی طرح مچھ کا سانحہ بھی گہرا زخم دے گیا لیکن ہم حسبِ سابق چند دن کے بعد یہ بھول جائیں گے کہ اِن سانحات کی وجوہات کیا ہیں۔ اِن کے پیچھے کون ہیں اور اُن کا تدراک کس طرح ممکن ہے؟ ابھی تو یہ تمام باتیں چھوڑ کر موضوع بحث وزیراعظم کا شہدائے مچھ کے لواحقین کے پاس تاخیر سے جانا ہی ہے۔ بلاشبہ وزیراعظم عمران خان کو فوری وہاں پہنچ کر اِن لواحقین و متاثرین کی داد رسی کرنی چاہئے تھی لیکن بہرحال وہ وہاں گئے، کچھ اُن کو دلاسہ ملا۔ کچھ اُن کی مالی مدد اور سرکاری ملازمتوں کی تسلی دی گئی۔ اِس طرح وہ باب تو ختم ہو گیا لیکن ہم اِس دوران مچھ کے بےگناہ مزدوروں کے قتلِ عام کے محرکات اور دہشت گردی کے ایسے واقعات کے سدباب پر غور کرنا بھول تو نہیں گئے۔ کیا ہم نے دہشت گردی کی وجہ سے اِس عظیم جانی نقصان کو سیاست اور حکومتی مفادات کی نظر تو نہیں کردیا؟ کیا اِس واقعہ کو اپوزیشن نے اپنے مقصد و مطلب کے لئے اور حکومت نے اپنی ضد اور انا کا ایشو تو نہیں بنایا؟ یقیناً ایسا ہی کیا گیا بلکہ اِس آپسی سیاسی لڑائی میں سیکورٹی اداروں پر بھی الزام تراشی سے اجتناب نہیں کیا گیا۔ ہم تو یہ بھول گئے کہ جس دشمن نے ہمارے غریب اور مزدور بھائیوں کو شہید کیا، وہ ہماری آپس کی سیاسی لڑائی، الزام تراشیوں اور سیکورٹی اداروں پر الزام لگانے سے کتنے خوش اور لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ خدارا! حکومت اور اپوزیشن کرسی کے حصول کی سیاسی جنگ کو اپنے تک محدود رکھیں۔ اس لڑائی میں عوام اور سیکورٹی اداروں کو شامل نہ کریں۔ اس ملک اور قوم کا سوچیں۔ اس ملک کا دفاع کرنیوالوں اور ان کی جانی قربانیوں کا احترام کریں۔ عوام کے دکھ درد کا مداوا نہیں کرتے تو اُن کے زخموں پر نمک بھی تو نہ چھڑکیں۔ سیکورٹی اداروں پر سیاست نہ کریں۔ یہ تو ملک کو ’’ کسی‘‘ کے اشارے پر کمزور اور قوم کو گمراہ و خوار کرنےکی سیاست ہے۔ سیاست اور جمہوریت اگر ملک کو مضبوط اور قوم کو خوشحالی دینے کے بجائے کمزوری اور تباہی کا باعث بنتی ہو۔ تو یہ قوم کو نہ قبول ہے نہ ہی اس کی ملک کو ضرورت ہے۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں کے اقدامات اور حرکات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ نظام چلنے والا نہیں ہے۔ اب قوم کو یہ نظام تبدیل کرنا پڑے گا۔ اس نظام میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عوام کی قطعاً فکر نہیں ہے۔ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے اور مشکلات کو کم کرنے کے بجائے احتساب کے نام پر ایسی کارروائیاں کررہی ہے جن سے انتقام کی بو ہرایک کو محسوس ہورہی ہے۔ حکومت اپوزیشن کے ساتھ سیاسی لڑائی میں ہر روز ہر قدم پر دفاعی اداروں کو گھسیٹتی ہے۔ جیسا کہ ’’حکومت اور فوج ایک صفحہ پرہیں۔ فوج ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ آخر حکومت کو روزانہ ایسی باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پاک افواج اس ملک کی افواج ہیں۔ فوج کا بھلا سیاست سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ آئینی طور پر پاک فوج شخصیات سے قطع نظر حکومت وقت کے ساتھ ہوتی ہے جو آئین پاکستان کے مطابق ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن (آج کل پی ڈی ایم) کا یہ کہنا کہ موجودہ حکومت سلیکٹڈ ہے اور سلیکٹرز نے یہ حکومت اس ملک پر مسلط کی ہے۔ تو الیکٹڈ اور سلیکٹڈ میں فرق تو خود اپوزیشن نے ختم کر دیا ہے۔ عوام نے موجودہ حکومت منتخب کی ہے۔ اِس کو اب الیکٹڈ کہیں گے یا سلیکٹڈ؟ عوام ہی تو پھر سلیکٹرز اور الیکٹرز ہیں۔ اگرفوج نے اِس حکومت کو ناجائز طور پر اِس ملک پر مسلط کیا ہے تو پھر دو سوالات کے جواب بھی دیتے جائیں کہ اِس میں فوج کو کیا حاصل ہوا ہے یا فوج کو کیا فائدہ درکار تھا جو اس حکومت نے دیا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس حکومت کو ووٹ دیے ان کے ووٹ کی کیا عزت رہ گئی؟ یقیناً اِن دو سوالوں کے خاطر خواہ جواب نہیں ہیں۔

اب سیاسی معاملات اِس نہج پر پہنچا دیے گئے کہ خود سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی عزت اور احترام کو تماشا بنادیا ہے۔ دوسری طرف اپنے مفادات کے حصول کے لئے دفاعی اداروں اور اہم ترین شخصیات کے عزت اور وقار و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی بھول گئے ہیں۔ عوام کے مسائل کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کو ہی حصول مراد قرار دیا گیا ہے۔ یہ قوم کے کیسے رہنما ہیں کہ حکومتی اراکین ہوں یا اپوزیشن رہنما، ہر وقت ہرجگہ ایک دوسرے پر کیچڑا اچھالتے ہیں۔ اگر پی ڈی ایم صرف اور صرف عوامی مسائل کو ہی موضوع بنا لیتی تو حکومتی مشکلات میں اضافے کا باعث اور عوام کی پذیرائی ملتی۔ اور اگر حکومت چور، ڈاکو کی گردان اور این آر او نہیں دیں گے، کسی کو نہیں چھوڑیں گے کی تکرار نہ کرتی بلکہ عوامی مسائل کے حل پر ساری توجہ مرکوز کرکے عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرتی تو اپوزیشن کی طرف سے عوام کو ہر پکار صدا بہ صحرا ثابت ہوتی لیکن دونوں طرف سے اب تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا، نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا کچھ نظر آتا ہے۔ عوامی مسائل و مشکلات سے پہلو تہی، امن و امان کو نظر انداز کرنا اور اہم اداروں پر الزام تراشیاں، کیا آئین کو بالائے طاق رکھنا نہیں ہے۔ کیا آئین کے مطابق یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا اپوزیشن کی سیاست شتر بےمہار ہے یا اس کے لئے کوئی معاشرتی روایات، اخلاقی و سماجی حدود قیود بھی ہیں؟ کوئی بتائے مسائل کے حل کی ذمہ داری بھی کسی کی ہے؟

اگر اسی طرح عوامی مسائل سے نظریں چرائے جائیں گے اور قابلِ احترام اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا تویہ اس قوم کو شاید اب قابلِ قبول نہ ہو۔ 2021ءویسے بھی ناگہانی اور اچانک’’ تبدیلیوں‘‘ کا سال ہے۔

تازہ ترین