وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حکومتی پالیسی پر اختلاف رکھنے والے وزراء اور مشیروں کو کھری کھری سُنائی تھیں۔
عمران خان کا کابینہ اجلاس میں کہنا تھا کہ بات صرف وہ ہو گی جو گفتگو کے بعد طے ہو گی، جب ایک بار بات طے ہو گئی تو اختلاف کی گنجائش نہیں۔ جو بولے گا حتمی بات کو سامنے رکھ کر پالیسی پر بولے گا اور جو نمبر ٹانکنے سوشل میڈیا پر اختلاف کرے گا وہ بہتر ہے استعفی دے، گھر جائے اور پھر اختلاف کرے۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز وفاقی کابینہ اجلاس میں تنقیدی وزراء اور مشیروں کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے حکومتی وزراء کے واٹس ایپ گروپ پر بھی تنقید کرنے والوں کو خوب سنائیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جسے کوئی اختلافی بات کرنی ہے ذاتی طور پر بھیجیں، گروپس میں لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
آخر وزیراعظم کا اشارہ کن لوگوں کی جانب تھا؟
کون ہو سکتا ہے کی اس پزل گیم میں کابینہ ذرائع کا پہلا اشارہ ہے ندیم افضل چن اور شہباز گل کی جانب۔ جب وزیراعظم نے ہزارہ برادری کے لاشیں رکھ کر احتجاج میں نا جانے کا فیصلہ کیا تو معاون خصوصی ندیم افضل چن نے سوشل میڈیا پر لکھا، اے بے یار و مددگا معصوم مزدوروں کی لاشوں۔ میں شرمندہ ہوں۔
اس کا جواب دیا شہباز گل نے۔۔اور اسے عوام میں مقبول بیانیے کی طرف کا بیان قرار دیا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ چُپ رہنا میڈیا سے غائب ہو جانا آسان اور لیڈر کا دفاع کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ندیم افضل چن نے جواب دیا کہ آج کل مقبول بیانیہ تو سیاستدانوں کو گالیاں دینا ہے جو میں نا پہلے دیتا تھا نا اب دوں گا۔
کابینہ ذرائع کے مطابق دوسرا اشارہ ہو سکتا ہے وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی جانب جنہوں نے کابینہ واٹس ایپ گروپ میں ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور وزیراعظم کے بروقت نا جانے کے فیصلے پر شدید اختلاف کیا تھا۔
کابینہ ذرائع کہتے ہیں تیسرا اشارہ ہو سکتا ہے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی جانب جو واٹس ایپ گروپ پر اور کابینہ میں پنجاب حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور وہاں گورننس میں بہتری چاہتے ہیں۔
کابینہ ذرائع کے مطابق چوتھا اشارہ ہو سکتا ہے پارٹی پالیسی پر عمل درآمد پر مطمئن نہ کر پانے والے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کی جانب جن کو وزیراعظم آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ بجلی کے شعبے کی وجہ سے انہیں رات کو نیند نہیں آتی اور پھر مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد جو کابینہ ذرائع کے دعوے کے مطابق تاحال امیدوں پر پورا نا اتر پائے۔ آٹا بحران، چینی بحران والے بھی خبردار۔
کابینہ ذرائع کے اشارے کچھ اور بھی ہیں مگر یہ سب کس حد تک درست ہیں اس بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی تاوقت یہ کہ کوئی استعفی آجائے یا کسی کو گھر بھیج دیا جائے۔