• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حزبِ اختلاف کے چند رہنما کچھ عرصے سے پاک فوج کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب سے پی ڈی ایم بنی ہے اس میں شدت آگئی ہے۔ پتہ نہیں یہ رہنماکن قوتوں کے اشاروں پر ایسا کر رہے ہیں جبکہ پاکستانیوں کے دل اپنی فوج کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاک فوج بھی ایک ادارہ ہے جیسے فضائیہ اور بحریہ ہے، اسی طرح آئی ایس آئی بھی ایک ادارہ ہے جیسے ایف آئی اے، پولیس، آئی بی اورا سپیشل برانچ ہیں۔ ریلوے، پی آئی اے، ریڈیو، ٹی وی، سائنس وٹیکنالوجی سمیت بہت سے ادارے ملک میں کام کر رہے ہیں، کسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہمارے سیاسی رہنمائوں کو کون سمجھائے کہ ادارے ہر حکومت سے تعاون کرتے ہیں خواہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو، مسلم لیگ ن کی یا پھر پی ٹی آئی کی ہو، ادارے حکومت کے تابع ہوتے ہیں کسی سیاسی پارٹی کے نہیں، پتہ نہیں کیوں ہمارے سیاسی رہنما اداروں کو جانبدار کہنے پر تلے ہوئے ہیں خاص طور پر انہوں نے فوج کو ہدف تنقید بنا رکھا ہے، فوجی جرنیلوں کو سب و شتم کرنااُن کی عادت سی بن گئی ہے، دولت کے پجاری ان سیاسی رہنمائوں کے جلسے فلاپ جا رہے ہیں کبھی یہ قومی زبان کے خلاف بولتے ہیں، کبھی صوبائی تعصب پھیلاتے ہیں، کبھی دھمکیوں پر اتر آتے ہیں اور کبھی اداروں کے خلاف الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں، خاص طور پر ایسے ادارے جو کرپشن کے خلاف کام کر رہے ہیں، انہیں برا بھلا کہنا تو ان کے گویا فرائض میں شامل ہے۔ اگر فیصلہ ان کے حق میں آ جائے تو انصاف کی فتح اور اگر خلاف آ جائے تو پھر کہا جاتا ہے کہ ....’’ یہ ججز بغض سے بھر ےہوئے ہیں....‘‘ ان چندرے رہنمائوں کے لئے کہاں سے ایسےادارے لے آئیں جو انہیں لوٹ مار پر کچھ نہ کہیں۔

خواتین و حضرات ! میں اس موضوع پر نہیں لکھنا چاہتا تھا کیونکہ اس تحریر پر بھی افسانے گھڑے جائیں گے مگر مجھے ان افسانوں کی اس لئے پروا نہیں کہ میں تو لکھتا ہی پاکستان اور اسلام کی محبت میں ہوں ورنہ میں سیدھا سادہ دیہاتی کہیں کھیتی باڑی کرتا۔ پیر کے روز اپوزیشن رہنمائوں نے مالاکنڈ میں جو کچھ کہا وہ سب سیاسی بغض تھا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ کہتے ہیں ...’’غیر اعلانیہ مارشل لا ہے، قوم اب اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کا رخ کرے، فوج قابل احترام اور ریاست کے لئے ناگزیر لیکن اسے وضاحت کرنا ہوگی کہ وہ غیر جانبدار ہے اگر وہ عمران کے حق میں فریق ہے تو پھر پنڈ ی جا کر احتجاج کرنا ہمارا حق بنتا ہے....‘‘اگر ملک میں غیراعلانیہ مارشل لا ہے تو پھر اس میں سندھ حکومت بھی شامل ہے، اس میں آپ کا ایک بھائی صوبائی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ہے، دوسرا بھائی سینیٹر اور آپ کا بیٹا قومی اسمبلی کا رکن کیوں ہے؟ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف کیوں ہے؟ پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز اپوزیشن لیڈر کیوں ہے؟ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کے رکن کیوں ہیں؟ اگر 2018ء کا الیکشن دھاندلی زدہ تھا تو پھر یہ سب دھاندلی کے نتیجے میں آئے، اور یہ جعلی اسمبلیاں ہیںتو پھر آپ کا بھائی، بیٹا اور آپ کے اتحادی اس پارلیمنٹ کا حصہ کیوں ہیں؟ آپ فوج سے وضاحت طلب کرتے ہیں پہلے علی امین گنڈا پور کو تووضاحت دے دیں، اس سے بھی پہلے اپنی پارٹی کے رہنمائوں کو وضاحت دے دیں۔ ایک اور بھی درخواست ہے کہ آپ اپنی اور اتحادی پارٹیوں میں سے وراثت، ملوکیت، بادشاہت، آمریت، خاندانی اجارہ داری اور اقربا پروری میں سے جمہوریت تلاش کرکے دکھائیں۔ آپ قوم کے سامنے وضاحت کردیں کہ پی ڈی ایم میں شامل کون سی ایسی جماعت ہے جس میں جمہوریت ہے؟ ایک اور رہنما کی بات کرلیتے ہیں باقی تو ویسے ہی قوالی میں شامل تھے، یہ رہنما فرماتے ہیں ....’’کٹھ پتلی راج کا خاتمہ، جمہوریت بحال کریں گے، جب عوام وزیراعظم کا فیصلہ کریں گے تو مستقبل روشن ہوگا...‘‘ آپ کو علم ہوگا کہ سندھ میں کس کی حکومت ہے، آپ کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ جائیداد یں وصیت سے منتقل ہوتی ہیں، سیاسی پارٹیاں نہیں، سیاسی پارٹیاں تو جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتی ہیں، آپ کو شاید یاد ہو کہ 1970ء میں عوام نے وزیراعظم کا فیصلہ شیخ مجیب الرحمٰن کے حق میں دیا تھا۔ تین سو نشستوں میں سے عوامی لیگ نے ایک سو ساٹھ حاصل کی تھیں جبکہ پیپلز پارٹی کو 81 سیٹیں ملی تھیں پھر 81 سیٹوں والے نے 160 سیٹوں والے کا احترا م نہ کیا اور یہ کہا کہ ’’جو ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے....‘‘ ۔ ایک سال اجلاس ہی نہ ہونے دیا گیا بلکہ اس دوران یہ تجویز دی کہ ...’’ اِدھر ہم، اُدھر تم‘‘۔ سات دسمبر 1970ء کے نتائج کو 16 دسمبر 1971ء تک کس نے تسلیم نہ کیا؟ آپ کو شاید یاد نہ ہو کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ سے کون ملا ہوا تھا؟ آپ کو شاید یہ بھی یاد نہ ہو کہ سانحہ مشرقی پاکستان یعنی سولہ دسمبر 1971ء سے چند ہفتے پہلے شیخ مجیب الرحمٰن نے کراچی میں (نیپ) نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما عابد زبیری کے گھر ڈنر میں شرکت کی تھی، رات کے کھانے کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن جونہی قصر ناز پہنچا تو اسے گرفتار کرلیا گیا، عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن کی کوشش تھی کہ اس کی واضح اکثریت کو تسلیم کرلیا جائے مگر جمہوریت کا درس دینے والوں نے اس کی اکثریت کو تسلیم نہ کیا۔

ذرا یہ تو بتائو کہ تم میں سے کس کا بیٹا پاکستان کے لئےلڑتے ہوئے شہید ہوا ہے؟ یہ کیسا طرز سیاست ہے کہ اقتدار نہ ملے تو سب جعلی اور دھاندلی زدہ نظر آتا ہے ، کبھی عورت کی حکمرانی کے خلاف تو کبھی حق میں فتوے، کبھی ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک قرار دینا، کبھی سڑکوں پرگھسیٹنےکی باتیں کرتے ہو، بولتے وقت سانحہ ماڈل ٹائون بھول جاتے ہو، تمہارے طرزِ سیاست نے میرے ملک کو لوٹا، میری دھرتی کو کنگال کیا، اب تم اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہو، تمہارا طرز سیاست کسی پاکستانی کو پسند نہیں۔ نیلم بھٹی کی کتاب ’’ندائےنیلم‘‘ سے ایک شعر یاد آگیا کہ؎

تھوڑا لکھتی ہے جان کر نیلمؔ

ساری باتیں قلم نہیں کرتے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین