• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچّے عطیۂ خداوندی اور ایسے پھولوں کی مانند ہیں، جو والدین کی زندگی میں بہار لاتے ہیں، لیکن دیکھا گیا ہے کہ عموماً والدین ان کی کسی غلطی پر سمجھانے بجھانے کی بجائے مار پیٹ سے کام لیتے ہیں کہ ان کے نزدیک بچّوں پر ہاتھ اُٹھانا اُن کے منصب کا تقاضا ہے۔ خاص طور پر ہمارے یہاں والدین، ​​بڑے بہن بھائی اور اساتذہ بچّوںپر مار پیٹ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بچّوں پر اس طرح کی زیادتی، جس میں تھوڑی بہت جسمانی سزا دی جائے، طبّی اصطلاح میں Corporal Punishment(جسمانی تشدّد)کہلاتی ہے، جس کا مقصد بچّوں کو کسی غلط کام سے روکنا اور ان میں نظم و ضبط پیدا کرنا ہے۔ 

جسمانی سزاؤں میں پٹائی کرنا، تھپّڑ یا لات مارنا، جلانا، زور زور سے جھنجھوڑنایا چَھڑی اور بیلٹ وغیرہ کا استعمال شامل ہیں۔جسمانی سزائوں ہی میں بچّوں کو ڈرانے، دھمکانے یا شرمندہ کرنے کے لیے کی جانے والی بدکلامی بھی شامل ہے۔

والدین بننا ایک بہت بڑی ذمّے داری ہے اور اچھے والدین بننے کا کوئی آسان حل بھی دستیاب نہیں، کیوں کہ’’ہم کس طرح کے والدین بنتے ہیں؟‘‘ اس کا انحصار ہمارے اپنے بچپن، تعلقات، گھریلو ماحول، ثقافتی پس منظر، زندگی کے حالات اور انفرادی شخصی خصوصیات ہی پر ہوتا ہے۔ لیکن، یہ امر بہت حد تک والدین کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ایک نرم دِل، دوسروں کا خیر خواہ اور ذمّے دار انسان بننے کی جانب راغب کرتے ہیں یا پھر انہیں خودغرضی اور بے راہ روی کا شکار ہونے دیتے ہیں۔

عام فہم یہ ہے کہ بچّوں کونظم و ضبط سکھانے کے لیے تھوڑی بہت جسمانی سزا دینا مناسب ہے، لیکن تحقیق اس کے برعکس ثابت ہورہی ہے کہ بچّوں کی مار پیٹ کے فوائد سے زیادہ نقصانات سامنے آتے ہیں۔ پھر جسمانی چوٹ یا مار پیٹ کے نشانات ظاہر ہونے کے ساتھ بچّے کے طرزِعمل، نفسیاتی، جذباتی اور علمی نشوونما پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔

جن بچّوں کو سزائیں دی جاتی ہیں، اُن میں جارحانہ پن، پُرتشدد رویّوں کے ساتھ ذہنی صحت کے مسائل مثلاً اضطراب، افسردگی اور خودکُشی کے رجحانات بھی پائے جاتے ہیں اور ان نفسیاتی مسائل کے اثرات دماغ کی نشوونما اور زبان پر عبور متاثر ہونے کی صُورت ظاہر ہوتے ہیں۔ نیز، تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ جسمانی تشدّد کی وجہ سے بچّوں کی آئندہ زندگی کئی طبّی مسائل سے دوچار ہوسکتی ہے، جب کہ عام زندگی میں بھی ان بچّوں کے رویّے دیگر سے مختلف ہوتے ہیں۔ 

جسمانی سزاؤں کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ اگر بعض اصولوں کے تحت ہلکی پھلکی سزا دی جائے، تو یہ چھوٹے بچّوں کو نظم وضبط سکھانے کے لیے مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہلکی اور سخت چوٹ کی شدّت کس قدر ہو؟ اس ضمن میں بعض کا موقف ہے کہ ہلکی مار پیٹ اُس وقت تک کی جائے، جب تک یہ جِلد پر نشان یا داغ نہ چھوڑ دے۔ لیکن کیا ان اثرات کو بھی دیکھنے کا کوئی طریقہ ہے، جو مارپیٹ کے نتیجے میں بچّے کی نفسیات پر مرتّب ہوتے ہیں؟

ہر بچّہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض بچّوں پر مسلسل پٹائی نفسیاتی طور پر اثر انداز نہیں ہوتی، لیکن کچھ کی، ایک ہی بار کی مار سے پوری زندگی متاثر ہوجاتی ہے اور پھر جو نفسیاتی مسائل سامنے آتے ہیں، اُن پر قابو پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔"The Global Initiative To End All Corporal Punishment Of Children"کے مطابق جسمانی سزا انسانی وقار اور جسمانی سالمیت کے احترام کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ادارہ جسمانی سزا دینے کے عمل کو بچّوں سے بدسلوکی کے زمرے میں ڈالنے کی سفارش کرتا ہے۔ یہاں والدین کو سمجھنا چاہیے کہ بچّوں کو مارپیٹ سے کبھی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اُنھیں اُن کے جس عمل پر سزا دی جارہی ہے، وہ غلط کیوں ہے اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ بچّہ والدین کے سامنے تو قابو میں رہتا ہے، لیکن ان کی عدم موجودگی میں آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ اُس کے اندر کے غصّے اور جارحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

مزید برآں، مستقل طور پر مار پیٹ کا خوف، جذباتی دباؤ کو جنم دیتا ہے، جس کی وجہ سے دوسروں پر عدم اعتماد، خود اعتمادی میں کمی اور دوسروں سے میل جول میں دشواری جیسے نفسیاتی مسائل بھی جنم لینے لگتے ہیں۔2017ء میں سندھ اسمبلی میں ایک قانون پاس کیا گیا، جس کے تحت جسمانی سزا اور بدکلامی کی ممانعت کی گئی۔ اس قانون کا اطلاق اسکولز، مدارس، یتیم خانوں اوردیکھ بھال کے دیگر متبادل اداروں پر ہوتا ہے،اس کے باوجودہم آئے دِن اسکولز اور مدارس میں طلبہ پر اساتذہ کے تشدّد کی خبریں سُنتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اساتذہ ایسی کڑی سزائیں دیتے ہیں کہ بچّہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ یہ قانون مکمل طور پر نافذ نہ ہونے کی ذمّے داری حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے، بلکہ اُن والدین اور اساتذہ پربھی، جو اس حوالے سے اپنے بچپن کے تجربات کو(جن میں جسمانی سزا کا مستقل استعمال ہوا ہو)بطور جواز پیش کرتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ بچّوں میں نظم ضبط پیدا کرنے کا مؤثر طریقہ کیا ہے؟عموماً بچّے جب تھکے ہوئے ہوں یا کچھ مانگ رہے ہوں، تو چڑچڑے پن کا مظاہرہ یا ضد کرتے ہیں۔ پھر اُنھیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اُن کی غلط عادات کے طویل مدتی نتائج کیا برآمد ہوسکتے ہیں، تو ایسے میں والدین، ​​اساتذہ اور دیگر افراد کی یہ ذمّے داری بنتی ہے کہ وہ ان کی پریشانیاں، مزاج سمجھیں اور ان کی درست سمت رہنمائی بھی کریں۔ لیکن رہنمائی تب ہی فائدہ مند ثابت ہوگی، جب اس کے لیے جسمانی سزا کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے گا۔

تمام ہی والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچّوں کی زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہو اور وہ فرماں بردار بھی ہوں۔ سو، ذیل میں والدین کے لیے چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں، جن پر عمل بچّوںمیں نظم و ضبط پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ ٭اگر بچّہ ضد کررہا ہو، تو اُسے بہت نرمی سے سمجھائیں کہ آپ کی نظر میں صحیح اور غلط کیا ہے۔ وہ بے شک آپ کے نقطۂ نظر سے متفّق نہ ہو، لیکن اُسے آپ کے موقف کے حوالے سے بہت واضح ہدایات ملنی چاہئیں۔٭کم عُمر بچّے جو اپنے والدین یا بڑوں کی بات کا مفہوم ٹھیک طرح سےسمجھ نہیں سکتے، ان کے لیے ری ڈائریکٹ تیکنیک کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس تیکنیک میں بچّے کی توجّہ اُس چیز سے ہٹا کر جس کے لیے وہ ضد کر رہا ہے، کسی دوسری طرف منتقل کر دی جاتی ہے۔٭ٹائم آؤٹ تیکنیک (Time Out Technique)بھی مفید طریقۂ کار ہے۔اس طریقۂ کار میں بچّے کو مخصوص وقت کے لیے ایک کونے میں خاموش کھڑا کردیا جاتا ہے۔ 

اس دورانیے میں وہ کسی سے بات چیت یا رابطہ نہیں کر سکتا۔ یوں بچّے کو سوچنے کا موقع ملتا ہے کہ اُس سے ایسی کیا غلطی سرزد ہوئی ہے، جس پر اُسے ایک کونے میں کھڑا کردیاگیا ہے٭بچّوں کے اچھے کاموں کی تعریف کرنے سے اُن میں مثبت سرگرمیوں کی ترغیب پیدا ہوتی ہے۔ اپنے بچّوں سے دوستانہ رویّہ اختیار کریں اوراُنہیں اچھے بُرے کی پہچان بھی کروائیں۔ 

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جسمانی سزا اور بدکلامی بچّے کو صرف عارضی طور پر ان کے منفی عمل سے روک سکتی ہے،لیکن یہ عمل ان میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی بجائے انہیں اپنے مسئلے مسائل تشدّد کے ذریعے حل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ بچّوں سے پیار، محبّت اورشفقت بَھرا رویّہ اختیار کرنے سے ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر بہت مثبت اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ اطفال ہیں اور آغا خان یونی ورسٹی اسپتال، کراچی سے وابستہ ہیں)

تازہ ترین