• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھ جانے کے نتیجے میں ٹینڈرز کی منظوری کے باوجود غیرملکی ڈیلروں کا پاکستان کو ایل این جی کی فراہمی سے انکار ملک میں پہلے سے موجود گیس بحران مزید شدید ہونے کے خطرے کی گھنٹی ہے جس سے نمٹنے کے لئے پیٹرولیم ڈویژن نے سفارش کی ہے کہ مجموعی طلب اور رسد کی صورتحال دیکھتے ہوئے یکم فروری سے اِن تمام صنعتی یونٹوں کو قدرتی گیس کی سپلائی بند کردی جائے جو مخصوص مقاصد کے لئے گیس سے بجلی بھی پیدا کرتے ہیں۔ یہ بندش طویل المعیاد بنیاد پر ہو سکتی ہے جس کا فیصلہ کابینہ کی توانائی کمیٹی کرے گی۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے 28نومبر کو فروری کے لئے گیس درآمد کرنے کا ٹینڈر جاری کیا تھا لیکن کنٹریکٹ ایوارڈ ہونے تک عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھ گئیں جس کی وجہ سے بولی میں کامیاب ہونے والی کمپنیوں نے طے شدہ ریٹ پر ایل این جی کی سپلائی سے معذرت کرلی۔ ڈیفالٹ کرنے والی ایک کمپنی کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے۔ اِس کا کارگو جہاز گیس لے کر فروری کے دوسرے پندرھر واڑے میں پاکستان پہنچنے والا تھا لیکن کمپنی نے اسے روک لیا اور زرِ ضمانت کے طور پر جو رقم جمع کرائی تھی اس سے بھی دستبردار ہو گئی۔ تاہم پاکستانی حکام نے آذربائیجان سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی کو گیس دینے پر رضا مند کر لیا ہے۔ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے حکام نے دوسرے اور تیسرے نمبر پر بولی دینے والوں سے بھی رابطہ کیا مگر انہوں نے بھی گیس فراہمی کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کامیاب بولی دہندگان کی جانب سے گیس کی فراہمی سے معذرت کی ایک وجہ ٹینڈر کی منظوری میں تاخیر بتائی گئی ہے جس کے باعث اس عرصے میں عالمی مارکیٹ میں قیمتیں غیرمتوقع طور پر بڑھ گئیں۔ اِس کے علاوہ بعض ملکوں نے گیس زیادہ خریدی اور ڈیمانڈ بڑھنے سے نرخ بھی بڑھے۔ یہ صورتحال صرف پاکستان کے ساتھ پیش نہیں آئی بلکہ کئی دوسرے ممالک بھی متاثر ہوئے کیونکہ متعدد دوسری کمپنیاں بھی ڈیفالٹ کر گئیں۔ درآمدی گیس صنعتوں اور گھریلو صارفین دونوں کے لئے بےحد اہمیت رکھتی ہے۔ صنعتوں کے لئے گیس ان کی پیداوار کی لازمی ضرورت ہے جو نہ ملنے سے انہیں بھاری نقصان اُٹھانا پڑے گا اور حکومت کے کئی معاشی اہداف بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ گیس نہ ملنے سے لوگ ایندھن کے لئے درخت کاٹنے لگتے ہیں جس سے جنگلات تباہ ہو رہے ہیں۔ گھریلوں صارفین پہلے ہی گیس کی شدید قلت کا رونا رو رہے ہیں اور پورے ملک میں سردی کے اس شدید موسم میں گیس نہ ملنے کی شکایت کر رہے ہیں۔ زیادہ بحران گنجان آبادیوں میں ہے جہاں گیس کی بندش گھمبیر مسئلہ بن چکی ہے۔ جنرل انڈسٹری اور کیپٹو پاور پلانٹس کے لئے گیس بند کردیں تو بھی اس کی قلت ختم نہیں کی جا سکتی۔ کئی شہروں میں گھریلو صارفین گیس کی عدم دستیابی کے خلاف مظاہرے کرنے پر مجبور ہیں۔ اتوار کو لاہور میں شہریوں نے جو احتجاجی جلوس نکالا اس میں خواتین برتن اور چولہے بجا بجا کر اپنی بےبسی کا اظہار کررہی تھیں۔ صارفین کی مشکلات دور کرنے کے لئے حکومت کو ملک کے اندر قدرتی گیس کے ذخائر بروئے کار لانے ہوں گے اور جب تک ایسا نہیں ہو جاتا درآمدی گیس کے حصول کے لئے سرکاری اداروں کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی فعال کرنا ہوگا۔ ٹینڈر منظور ہونے کے باوجود گیس سپلائی نہ کرنے والے غیرملکی ڈیلرز کے خلاف حکومت قانونی چارہ جوئی کا ارادہ رکھتی ہے، جو بولی دہندگان زرضمانت ضبط ہونے کی بھی پروا نہیں کرتے حکومت کو انہیں مستقل بلیک لسٹ کردینا چاہئے اور مستقبل میں گیس کے حصول کے لئے دوسرے ذرائع تلاش کرنے چاہئیں۔ صنعتوں کا پہیہ چالو اور گھروں کے چولہے جلتے رکھنے کے لئے حکومت کو مؤثر فیصلے کرنا ہوں گے۔

تازہ ترین