• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صاحب جی آئیں کھانا کھالیں ،ایک زور دار آواز نے مجھے اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا میں نے اپنی دائیں جانب دیکھا تو وہاں سڑک کے کنارے موجود موچی کی دکان سے یہ آوا ز مجھ تک پہنچی تھی۔ میں گزشتہ ایک گھنٹے سے اسی علاقے میں شام کی واک میں مصروف تھا، پانچ کلومیٹر کی واک مکمل ہوچکی تھی، شام بھی اپنے اختتام کی جانب گامزن تھی اور سورج مغرب کی جانب بادلوں میں گم ہونے کو تھا۔ میں نے آواز دینے والے نوجوان موچی کا ایک بار پھر بغور جائزہ لیا، آف وائٹ کلر کی صاف ستھری شلوار قمیص میں ملبوس وہ ایک پرکشش شخصیت کا حامل تھا، اس کا تعلق خیبر پختوانخواہ سے لگ رہا تھا‘ شام کے سائے گہرے ہونے کے بعد وہ جوتے پالش اور مرمت کرنے کی اپنی جھونپڑی نما دکان بند کررہا تھا، میں نے مسکراتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا تو اس نے ایک بار پھر مجھے کھانا کھانے کی دعوت دی، اس بار نہ جانے کیوں میرے قدم رک گئے اور اچانک میرا رُخ اس کی دکان کی جانب ہوچکا تھا، شاید میں دیکھنا چاہ رہا تھا کہ اس غریب شخص کی دعوت میں کتنی سچائی ہے؟ میں یہ بھی دیکھنا چاہ رہا تھا کہ اس کے زبانی اخلاق اور حقیقی کردار میں کتنا فرق ہے یا یوں کہہ لیں کہ میں اس کا امتحان لینا چاہ رہا تھا چنانچہ میں دکان تک پہنچ گیا اور مسکراتے ہوئے کہا جی خان صاحب بچھائیے دستر خوان، آج کا کھانا آپ کے ساتھ کھاتے ہیں۔ وہ ایک لمحے کے لئےحیران ہوا لیکن اگلے ہی لمحے اس کا اعتماد اس کی حیرانی پر غالب آگیا۔ اس نے دکان کے ساتھ لگے کھمبے سے لئے گئے کنڈے کی بجلی سے اپنی دکان کا بلب روشن کیا ،تھوڑی سے صفائی کی، مجھے ایک پتھر پر بیٹھنے کی دعوت دی اور درمیان میں چمڑے کا ایک دستر خوان بھی بچھا دیا، وہ زیرِلب مسکرا بھی رہا تھا، نوجوان نے ایک کپڑے نما ٹفن کو دستر خوان پر رکھا اور پھر کپڑے کی تہیں کھولنے لگا، کپڑے کی گرہ کھلتے ہی سب سے پہلے اس میں سے دو روٹیاں نکلیں جن پر شاید گھی بھی لگا ہوا تھا جب کہ اسٹیل کے ٹفن کو کھولا تو اس میں آلو کی ترکاری موجود تھی، جلدی سے اس نے ایک کونے میں موجود مٹی کی صراحی سے اسٹیل کے گلاس میں پانی ڈالا اور بولا، جی صاحب! بسمہ ﷲ کریں ، میں اس کے اخلاق سے بہت زیادہ متاثر ہوچکا تھا، واقعی یہ دعوت دکھاوا نہیں تھی بلکہ اس نے اپنا کھانا میرے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔ مجھے اب تسلی ہوچکی تھی کہ میرا نوجوان دوست بہترین کردار کا مالک ہے۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو اس نے زبردستی مجھے روک لیا کہ صاحب اب کھانے میں آپ کو میرا ساتھ دینا پڑے گا ورنہ میرے رزق سے برکت ختم ہوجائے گی۔ وہ میرے کافی اصرار کے باوجود بھی نہ مانا تو میں بھی کھانے میں شریک ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ہماری خاصی شناسائی ہوچکی تھی۔ اس نوجوان کا نام عبدﷲ تھا اور وہ پشاور کے نزدیک کسی گائوں کا رہائشی تھا، میٹرک تک تعلیم حاصل کرکے اپنے والد کے پاس کراچی چلا آیا تھا اور اب والد کے ساتھ موچی کا کام کرتا تھا۔ عبدﷲ کا کہنا تھا کہ شروع شروع میں موچی کی دکان پر بیٹھنے میں شرم محسوس ہوتی تھی لیکن والد صاحب بوڑھے ہو چکے تھے لہٰذا ان کی جگہ اب میں کام کرتا ہوں۔ عبدﷲ کچھ مایوس بھی تھا‘ اس کا کہنا تھا کہ اس کے والد بھی تیس سال قبل محنت مزدوری کے لئے کراچی آئے اور ان گزرے برسوں کے دوران موچی کی یہ دکان ہی ان کی زندگی کا کل سرمایہ تھی اور اب شاید اگلے تیس سال تک عبدﷲ کو بھی موچی بن کر زندگی گزارنا پڑے گی۔ میں اگلے دو گھنٹے تک عبدﷲ کا مہمان بنا رہا، کھانے کے بعد عبدﷲ نے ہی مجھےچائے بھی منگوا کر پلائی جس کا بل بھی اس نے مجھے ادا نہیں کرنے دیا۔ میں نے دعوت کے اختتام پر عبدﷲ سے کہا کہ پرسوں دوپہر کی دعوت میری طرف سے ہے‘تمہیں میرے ساتھ کہیں چلنا ہوگا۔ میں نے کافی سوچ بچار کے بعد ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کو فون کیا تاکہ اس کے ذریعے اپنے علاقے کی ایک معروف مارکیٹ میں کرائے کی دکان کی تفصیلات لوں، اگلے دن دکان کرائے پر لینے کے تمام معاملات طے ہو چکے تھے اور درمیانے درجے کی سرمایہ کاری کے ساتھ ایک اچھا کاروبار شروع ہو سکتا تھا ،اب مجھے اگلے دن کا انتظار تھا۔ صبح ہوئی، میں نے دکان کا رخ کیا جہاں سامان کی آمد شروع ہوچکی تھی۔ دوپہر کو میں عبدﷲ کی دکان پر پہنچا، وہ اور اس کے والد دکان پر تھے۔ میں عبدﷲ کو لے کر نئی دکان پہنچا، اسے بتایا کہ یہ دکان اور یہ کاروبار آ ج سے تمہارا ہے، اگلے چھ ماہ یہ فیصلہ کریں گے کہ میرا تمہارے لئے یہ فیصلہ درست ہے یا غلط؟ عبدﷲ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا، اس کی آنکھوں میں حیرت اور تشکر کے آنسو تھے۔ اگلے چند دنوں میں موچی شوز نامی عبدﷲ کی نئی دکان پر کاروبار آب و تاب سے چل رہا تھا ، اس دکان کے ایک حصے میں اس کے والد اب بھی جوتے ٹھیک کرنے کا اسٹال لگایا کرتے تھے ، آج ایک سال بعد میں پھر عبدﷲ کی موچی شوز نامی دکان پر موجود تھا اور وہاں موجود رش دیکھ کر بہت خوش تھا۔

تازہ ترین