• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چونکہ براڈ شیٹ کی تفصیلات اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ اس لئے اس بارے مزید کچھ لکھنا قارئین کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اب تو اس کے نتائج کو دیکھنا چاہئے۔ تفصیلات سے یہ بات بھی صاف ہو چکی ہے کہ براڈ شیٹ ایک جعلی کمپنی تھی اور نیب کے ساتھ معاہدے اور اس کمپنی کے قیام بعداز معاہدہ کے سارے کردار نوسر باز تھے۔ ان شاطروں نے اس وقت کے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ نوسربازی کے ذریعے پاکستان کو لوٹنے میں اہم کردار دو پاکستانیوں کا ہی تھا ۔ بعض دوست اس معاہدے کے ذمہ دار اس وقت کے چیئرمین نیب جنرل(ر) امجد کو قرار دیتے ہیں۔ بیس سال قبل ہونیوالے نام نہاد براڈ شیٹ نامی کمپنی اور نیب کے درمیان معاہدے کا شور اب کیوں اٹھا ہے۔ اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ایک غیر ملکی عدالت کے حکم پر پاکستان کو جرمانہ ہوا۔ شاید پاکستان اپنے کیس کی صحیح پیروی نہیں کرسکا یا اس میں دلچسپی نہیں لی گئی۔ اس معاہدے میں بڑے اتار چڑھائو بھی آئے۔ موجودہ حکومت نے خود اس قصے کو اچھالا اور اب بھی اچھال رہی ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ موجودہ حکومت کا براڈ شیٹ اور نیب معاہدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اور جو رقم ان کی حکومت نے ادا کردی ہے یہ مجبوری تھی ورنہ اس پر پانچ ہزار یومیہ سود کا اضافہ ہوتا۔ وزیر اعظم نے یہ بالکل درست اور قانونی بات کی ہے۔ یہ تو قانون کے ماہرین جانتے ہیں کہ پاکستان نے اس کیس میں اپنے دفاع کے لئے وہ کردار کیوں ادا نہیں کیا جو اُسے ادا کرنا چاہئے تھا۔ اور کیا برطانوی عدالت کےفیصلے کو کہیں اور چیلنج کیا جاسکتا تھا یا نہیں۔ لیکن حکومت کا یہ موقف اور بیانات ناقابل فہم اور تلخی بڑھانے کے مترادف ہیں کہ براڈشیٹ کی کوششوں سے نواز شریف وغیرہ کے اربوں روپے کی جائیدادوں کا سراغ ملا اور براڈ شیٹ پانامہ ٹو ثابت ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اگر براڈ شیٹ کے ذریعے اس طرح کی معلومات ملی ہیں تو پھر یہ شوروغل کیسا؟ حکومت دریافت شدہ جائیدادوں سے ریکوری کرتی اور معاہدے کے مطابق اس کمپنی کو معاوضہ ادا کیا جاتا۔ پھر کیس بننے اور کیس لڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ براڈ شیٹ نامی نام نہاد کمپنی نےمعاہدے کا دس فیصد بھی کام نہیں کیا پھر بھی پاکستان سے خطیر رقم وصول کرلی۔ اگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تواس معاہدہ میں اس وقت کے چیئرمین نیب(ر) جنرل امجد نے اس وقت کے حالات کے مطابق2000میں اس کمپنی سے معاہدہ کیا اور حالات کی تبدیلی اور کمپنی کی طرف سے کارکردگی سامنے نہ آنے پر2003میں معاہدہ ختم کردیا گیا۔ اصل ذمہ دارتو شاید وہ لوگ ہیں جنہوں نے بعد میں کیس پر توجہ نہیں دی یا کوئی ملی بھگت ہوئی اور پاکستان کو بلاوجہ اتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اب حکومت نے براڈ شیٹ معاملہ پر جو کمپنی بنائی ہے اس کے سربراہ پر اپوزیشن نے اعتراٖ ض کردیا ہے۔ اپوزیشن کو شاید یہ خوف ہے کہ حکومت براڈ شیٹ کی کہانی سے جھوٹے انکشافات کشید کرکے ان کے لئے مزید مشکلات پیداکرسکتی ہے۔ جب پورے پاکستان کو معلوم ہوچکا ہے کہ براڈ شیٹ نامی جعلی کمپنی کی کوئی کارکردگی ہی نہیں تھی اور یہ بیس سال پرانا کیس صرف اس جرمانے کی وجہ سے سامنے آیا اور موجودہ حکومت نے خواہ مخواہ اس کو اچھال کر اپوزیشن کے خلاف استعمال کرنے کی غیر دانشمندانہ کوشش کی ہے تو اپوزیشن کو خوفزدہ ہونے کیا ضرورت ہے۔ دوسری طرف حکومت پانامہ سے صرف ایک ’’ اقامہ‘‘ ہی نکال سکی تو براڈ شیٹ سے کیا نکل سکتا ہے۔ البتہ زبردستی کسی کو پھنسانا اور بات ہے۔ گزارش صرف یہ ہے کہ جس بھی شخص نے اس ملک کی 35سال خدمت کی ہو اور اس نے اس ملک کے دفاع اور سلامتی کے لئے ہمیشہ اپنی جان ہتھیلی پررکھ کرملک وقوم کو مقدم سمجھا ہو۔ وہ جنرل(ر) امجد ہو ۔ جنرل (ر) عاصم باجوہ ہو یا کوئی اور، اس کے بارے میں توہین آمیز اور بے بنیاد الزامات اس ملک وقوم کی توہین کے مترادف ہیں۔ ہمارے ہاں یہ بدقسمتی ہے کہ کوئی بھی اپنی غلطی اور کوتاہی مانتا ہے اور نہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتا ہے۔ بلکہ الزامات بھی دوسرے پر لگاتا ہے اور غلطی کا ذمہ دار بھی دوسرے کو گردانتا ہے۔ جیسا کہ موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ یہ ممکن نہیں تھا ورنہ حکومت تو کورونا کی ذمہ دار بھی سابقہ حکومت کو ہی ٹھہراتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ براڈ شیٹ اور نیب کے معاملے کو اچھالنے کے بجائے عوامی مشکلات کے حل پر توجہ دے اسی سے حکومت کے حق میں نتائج نکلیں گے۔

ایک اور معاملہ جو عرصے بعد گرم ہوگیا ہے وہ فارن فنڈنگ کا ہے۔ اس بارے میں بعض حکومتی بیانات معاملے کو مشکوک بنارہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کا انتظار کرناچاہئے۔ اگر کوئی فریق اس فیصلے سے مطمئن نہ ہوتو اعلیٰ عدلیہ بھی موجود ہے وہاں سے اس فیصلے کے خلاف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ زیر سماعت اور زیر بحث معاملہ پر پہلے سے شکوک وشہبات ظاہر کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کا ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے بھی اس طرح کے کیس الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہیںسابقہ اور موجودہ الیکشن کمشنرز کے بارے میں حکومتی بیان بھی نامناسب ہے۔

اپوزیشن جماعتوں پرمشتمل گیارہ جماعتی اتحاد یعنی پی ڈی ایم کے بارے میں یہ تاثر کہ ان کی گرمجوشی ماند پڑ گئی ہے شاید درست نہیں ہے۔ البتہ پی ڈی ایم کو بعض اختلافات کا سامنا ہے اور اس کی وجہ ایک جماعت ہے جو پی ڈی ایم کو محض اپنے مفادات کے لئے استعمال کررہی ہے۔ جواس اتحاد کے لئے باعث نقصان ہوگا۔

تازہ ترین