• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

179 میگا کرپشن کیسز میں نیب کی خراب کارکردگی

اسلام آباد (انصار عباسی) مئی 2015ء میں نیب نے کرپشن کے 179؍ ’’بڑے کیسز‘‘ کی ایک فہرست پیش کی تھی لیکن پانچ سال گزرنے کے باوجود بیورو نے عدالتوں سے صرف سات میں ملزمان کو سزائیں دلوائیں ہیں۔

نیب کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ باضابطہ معلومات کے مطابق آٹھ معاملات میں، ٹرائل کورٹ نے ملزمان کو بری کردیا جن میں آصف علی زرداری، راجہ پرویز اشرف، شوکت ترین اور دیگر (دو کیسوں میں بریت)، سابق رکن قومی اسمبلی انجم عقیل خان اور دیگر، اور سابق رکن قومی اسمبلی نسیم الرحمان شامل ہیں۔

پلی بارگین کے کیسز بھی ہیں جنہیں بیورو نے سزا یابی کی کیٹگری میں شمار کیا ہے۔ بیورو کی ویب سائٹ پر جو معلومات موجود ہیں وہ چند ماہ قبل اپ ڈیٹ کی گئی ہیں۔

اسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کا نام اُن افراد میں شمار کیا گیا ہے جن کیخلاف انوسٹی گیشن جاری ہے لیکن حال ہی میں بیورو نے یہ انوسٹی گیشنز بھی بند کر دی ہیں۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کیخلاف رائیونڈ روڈ کنسٹرکشن کے کیسز میں انوسٹی گیشن جاری ہے اور یہ میگا کرپشن کیسز میں شامل ہے۔

ایک فہرست ایسی بھی ہے جو اختیارات کے غلط استعمال کے حوالے سے اسحاق ڈار کیخلاف ہے جس کے حوالے سے نیب کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ مخبر کی فراہم کردہ معلومات کے تحت یہ انوسٹی گیشن شروع کی تاہم بورڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے ستمبر 2016ء میں یہ انوسٹی گیشن بند کر دی۔

’’تاہم، سپریم کورٹ کی ہدایت پر آمدنی سے زیادہ اثاثوں کے الزامات کے حوالے سے ایک انوسٹی گیشن کی اجازت دی گئی ہے اور عبوری ریفرنس نمبر 21/2017 احتساب عدالت میں 8؍ ستمبر 2017ء کو دائر کیا گیا ہے۔ مزید برآں، ضمنی انوسٹی گیشن بھی جاری ہے۔‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب دعویٰ کرتا ہے کہ نیب نے انتہائی ترجیحی بنیادوں پر کرپشن کے 179؍ میگا کیسز کو حتمی شکل دینے کیلئے اقدامات کیے اور ساتھ ہی دیگر زیر التوا کیسز کا بھی فیصلہ کرنے کو ترجیح دی گئی جو نیب کے مختلف ریجنل آفسز میں تھے۔

ان کیسز کے حوالے سے پیشہ ورانہ رویہ اختیار کیا گیا اور ان کے میرٹ اور شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔

کرپشن کے میگا کیسز میں 2015ء کی 52؍ انوسٹی گیشنز میں سے آج صرف 15؍ باقی رہ گئی ہیں۔ 42؍ انکوائریوں کے اضافے سے جنہیں اپ گریڈ کیا گیا تھا، انوسٹی گیشنز کی مجموعی تعداد بڑھ کر 94؍ ہوگئی جن میں سے 68؍ کو ریفرنسز کیلئے حتمی شکل دی گئی، 4؍ کا فیصلہ پلی بارگین کے تحت ہو گیا جبکہ 7؍ انوسٹی گیشنز بند کر دی گئیں۔

2015ء میں میگا کیسز میں 48؍ ریفرنسز شامل تھے اور ان پانچ سال میں انوسٹی گیشنز سے یہ کیسز تبدیل ہوگئے ہیں اور اب عدالتی کیسوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 114؍ ہوگئی ہے جن میں 17؍ کیسز سزا یابی (عدالت کے ذریعے یا پھر پلی بارگین کے ذریعے) پر منتج ہو کر ختم ہوگئے جبکہ 97؍ مقدمات میں ٹرائل جاری ہے۔

31؍ اکتوبر 2020ء تک کی صورتحال دیکھیں تو نیب کا دعویٰ ہے کہ کرپشن کے 179؍ میگا کیسز میں سے 10؍ میں انکوائری جاری ہے، 15؍ میں انوسٹی گیشن ہو رہی ہے، 97؍ میں ٹرائل ہو رہا ہے جبکہ 57؍ ختم ہو چکے ہیں۔

تازہ ترین