لندن (سعید نیازی) برطانیہ میں کورونا سے ہونے والی اموات ایک لاکھ سے تجاوز کرنے کے باوجود ابھی یہ سلسلہ تھما نہیں۔سائنسدانوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ ابھی مزید 50 ہزار اموات واقع ہوسکتی ہیں۔ وزیراعظم بورس جانسن نے منگل کی شام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے وبا پر قابو پانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے، لیکن بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے آغاز سے پہلے اور درمیان میں ایک کے بعد ایک غلط فیصلوں کے سبب ملک میں اموات کی شرح اتنی بلند ہوئی ہے۔ اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے سائنٹیفک ایڈوائزری کے باوجود تینوں مرتبہ لاک ڈائون لگانے میں تاخیر کرکے ’’یادگار غلطیاں‘‘ کی ہیں، یونیورسٹی آف ایڈنبرا کی پبلک ہیلتھ کی ماہر پروفیسر لنڈا بالڈ نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار وہ فیصلے ہیں جو پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے غلط وقت پر کئے گئے، انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ اینڈ ٹریس سسٹم پر بھرپور توجہ نہیں دی گئی اور انٹرنیشنل ٹریول کے مسئلہ سے احسن طور پر نہ نمٹنے کے سبب موسم سرما میں وبا زیادہ اموات کا سبب بنی۔ پروفیسر سر مائیکل مارموٹ نے کورونا کے سبب ہونے والی اموات میں عدم مساوات کا جائزہ لیا، ان کا کہنا تھا کہ وبا کی تیزی کے سبب اموات میں اضافہ ہوا ہے، صحت کے حوالے سے عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے اور زندگی کی موت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شیڈو سیکرٹری جوناتھن ایشورتھ نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ وزیراعظم نے وبا کو کنٹرول کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی اور وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ طبی ماہرین نے جب وزیراعظم کو لاک ڈائون لگانے کو کہا تو انہوں نے نہ صرف مارچ بلکہ ستمبر اور دسمبر میں بھی اس حوالے سے تاخیر کی۔ حکومت فعال کنٹکٹ ٹریسنگ سسٹم بھی بنانے میں ناکام رہی، سرحدوں پر ہیلتھ کنٹرول نافذ نہیں ہوسکا اور ابھی تک بیمار افراد کو مناسب ’’سک پے‘‘ نہیں مل رہی، کمیونٹیز سیکرٹری رابرٹ جینرک نے کہا کہ وزیراعظم اور کابینہ نے صورت حال کے مطابق بہترین فیصلے کئے۔ توقع کی جارہی ہے کہ بورس جانسن لاک ڈائون میں مرحلہ وار نرمی کے حوالے سے آئندہ ماہ تفصیلات سامنے لائیں گے۔ جس میں وبا کی صورت حال، ہسپتالوں میں داخل افراد کی تعداد، اموات اور ویکسی نیشن پروگرام کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھا جائے گا۔ برطانیہ کورونا سے ایک لاکھ کا ہندسہ عبور کرنے والا پانچواں اور یورپ کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ، برازیل، بھارت اور میکسیکو میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ سائنٹیفک ایڈوائزری گروپ فار ایمرجنسیز کے رکن پروفیسر کالم سمپل نے کہا ہے کہ وبا سے اگر مزید 40 سے 50 ہزار کے درمیان اموات ہوئیں تو یہ بات حیران کن نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والے وائرس کی برطانیہ آمد کے سبب کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ آرچ بشپ آف کنٹربری جسٹن ویبی نے کہا ہے کہ تمام مذاہب کے افراد اور جو کسی بھی مذہب پر یقین نہ بھی رکھتے ہوں وہ یکم فروری سے روزانہ 6 بجے شام اجتماعی عبادت میں شریک ہوں، انہوں نے کہا کہ اموات کی تعداد صرف ہندسے نہیں بلکہ ہر ہلاک ہونے والا شخص کسی کا پیارا تھا۔ مسلم رہنمائوں نے آرچ بشپ کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ ماسکس اینڈ امامز نیشنل ایڈوائزری گروپ کے چیئرمین قاری عاصم نے کہا کہ مسلم کمیونٹی کی بڑی تعداد وائرس کے سبب ہلاک ہوئی اور پابندیوں کے سبب لواحقین ان کا سوگ بھی نہیں منا سکے۔ منگل کے روز مزید ایک ہزار 631 افراد کی ہلاکت کے بعد اموات کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 162 ہوگئی ہے۔ جبکہ 20 ہزار 89 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔