جب سے وفاق اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے بیورو کریسی اور گورننس کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے پنجاب میں گورننس کے مسائل بہت زیادہ ہے اور اصلاحات کے نام پر بیرو کریسی کے لیے ایسی بدگمانیاں اور مشکلات کھڑی ہو رہی ہیں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں چند افسران کے سوا باقی بیوروکریسی گڈ گورننس کے مبینہ اقدامات سے سخت پریشان ہے۔افسر شاہی کی مشکلات کے باعث پنجاب حکومت گڈ گورننس قائم کرنے میں ناکام دکھائی دی رہی ہے ۔ ایسے میں حکومتی مشینری کیسے چلے گی۔کسی کو کچھ پتہ نہیں۔
عثمان بزدار کی حکومت اگرچہ اس حوالے سے پہلے دن سے مشکلات کا شکار ہے مگر وہ بار بار کے تبادلوں کے باوجود کوئی قابل اعتماد ٹیم نہیں بنا سکے جس کی وجہ سے گورننس کے مسائل مزید گھمبیر ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت اور اپوزیشن اتحاد اور پی ڈی ایم میں شامل پاکستان مسلم لیگ ن کے لئے براڈ شیٹ کیس ایک دو دہاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے جس نے دونوں بڑی جماعتوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے تادم تحریر دونوں فریق اس سے سخت پریشان ہیں اور الزام تراشیوں کا طوفان ہے جو تھمنے کو ہی نہیں آ رہا۔دونوں جماعتوں کی اعلی قیادت پوری شدت کے ساتھ ایک دوسرے پر حملے آور ہے۔ تحقیقات کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی بنا دیا گیا مگر مسلم لیگ ن اسے مسترد کر دیا ہے ذرا اس حوالے سے فریقین کا مئوقف دیکھیے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے براڈ شیٹ معاملے پر کہا براڈ شیٹ معاملے سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ براڈ شیٹ کا معاہدہ سابق صدرجنرل (ر) پرویز مشرف نے کیا تھا۔انہوں نے کہا پاکستانیوں کے چوری کیے گئے اربوں ڈالرز بیرون ممالک میں ہیں، اگررقم نہ دیتے تو ایک دن میں سود 5 ہزار پاؤنڈ دینا پڑتا۔عمران خان نے مزید کہاکہ پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس بد نیتی پر مبنی ہے۔ان کا کہنا تھاکہ بجلی کی قیمت اس لیے بڑھائی کہ ہم ملک پر مزید قرضے نہیں چڑھاسکتے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے براڈ شیٹ کمیٹی کے سربراہ جسٹس عظمت سعید پر اپوزیشن کے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا جسٹس عظمت سعید نے پانامہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی والیم 10 پڑھ رکھی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا آئندہ چندہ ماہ میں براڈ شیٹ کے معاملے پر پانامہ ٹو بن جائے گا، اپوزیشن کو یہ معاملہ گھیر ے میں لے لےگا۔اپوزیشن بتائے براڈ شیٹ کمیٹی میں جسٹس عظمت سعید کو نہ لگائیں تو کیا ملک قیوم کو کمیٹی کا سربراہ بنائیں؟ان کا کہنا تھا کہ عظمت سعید نے پانامہ جے آئی ٹی کی والیم 10 پڑھی ہوئی ہے، ن لیگ کی 85 ملین سے 100 ملین کی پراپرٹی براڈشیٹ میں آسکتی ہے۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا اپوزیشن جماعتیں براڈ شیٹ معاملے پر من پسند کمیشن چاہتی ہیں۔ایک بیان میں فواد چوہدری نے کہا اپوزیشن براڈ شیٹ پر رفیق تارڑ، افتخار چوہدری اور ملک قیوم پر مبنی کمیشن چاہتی ہے،جب ایسے لوگ احتساب کریں گے جن کو خریدنا مشکل ہو گا تو ان کی چیخیں آسمان تک جائیں گی۔
وفاقی وزیر نے مزید کہاکہ اپوزیشن اتحاد کے پاس 2 ہی راستے ہیں ، یا پیسے واپس کریں یا جیل کاٹیں۔ان کا کہنا تھاکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نئی قیادت سامنے لائیں، دونوں خاندانوں کا مستقبل تاریک ہے۔ براڈ شیٹ پر تحقیقات کی گونج سینیٹ اجلاس میں بھی پہنچ گئی، حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے آگئی۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے براڈ شیٹ معاملے پر کہا جون 2000 میں براڈ شیٹ معاہدے پر اس وقت کے چیئرمین نیب نے دستخط کیے، حکومت پاکستان اب تک 1ہزار کروڑ روپے براڈ شیٹ کو ادا کرچکی۔شاہد خاقان عباسی نے استفسار کیا 1 ہزار کروڑ روپے کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی جواب دینے والا ہے؟ کیوں پیسے بھیجے؟ کس مقصد کےلیے بھیجے گئے؟شاہد خاقان عباسی نے کہاجنہوں نے انگلینڈ پیسے بھیجنےکا فیصلہ کیا وہ کمیشن میں بیٹھے ہیں، وزرا اور سرکاری افسروں پر براڈ شیٹ سے حصہ مانگنے کا الزام لگا ہے۔
اُن کا کہنا تھاکہ عظمت سعید صاحب کو کمیشن کا انچارج لگایا گیا، ملک میں کمیشنوں کی تاریخ زیادہ عزت افزا نہیں، حمود الرحمان کمیشن سے چینی کا کمیشن بننے تک صرف مجرموں کو چھپانے کی کوشش ہوئی۔ حکومت گرانے کی حکمت عملی پر اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم) کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرف سے عمران خان کو گھر بھیجنے کے معاملے پر اختلافات کا اظہار کھل کر کیا جانے لگا ہے۔
گڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کی تقریب سے خطاب میں سابق صدر آصف زرداری نے گزشتہ ماہ ہی پی ڈی ایم کو حکمت عملی بدلنے کا مشورہ دیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ میں تقریب سے خطاب میں اپوزیشن اتحاد کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے متعلق مشورہ دیاتھا۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کی طرف سے مشورے اور تجاویز سامنے آنے پر اعتراض اٹھادیا ہے۔ گیارہ جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں حکومت کے خلاف اِن ہاؤس تبدیلی پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں ان ہاؤس تبدیلی کے سلسلے میں اختلاف برقرار ہے، اپوزیشن کے اتحاد میں حکومت کے خلاف حکمت عملی پر ایک رائے قائم نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف سخت گیر موقف کی حامی نہیں، بلاول بھٹو، اختر مینگل اور آفتاب احمد خان شیر پاؤ اِن ہاؤس تبدیلی کے حامی ہیں، نیز، پیپلز پارٹی جمہوری عمل کو برقرار رکھنا چاہتی ہے، اور اس کا موقف ہے کہ پارلیمنٹ سے باہر کوئی بھی عمل جمہوریت کو ڈی ریل کر سکتا ہے۔
تاہم پی ڈی ایم میں شامل بعض جماعتیں اِن ہاؤس تبدیلی نہیں چاہتی، اور یہ جماعتیں حکومت کے خلاف سخت گیر موقف کی حمایتی ہیں، مولانا فضل الرحمان، میاں نواز شریف، ساجد میر، اویس نورانی اور بعض دیگر رہنما ان ہاؤس تبدیلی کے حامی نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم متحد ہے، حکومت اس پر ہر طرف سے وار کرے گی۔ سابق صدر کا کہنا تھا حکومت کو گھر بھیجنا اس وقت بہت ضروری ہوچکا ہے۔