• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس بات سے قطع نظر کہ کون بدعنوان ہے اور کون نہیں،ایک واضح تاثر ابھر کر سامنے آیا ہے کہ انصاف کا متلاشی ہونے کی بجائے انسانی ذہن قانون کے دائرے میں قید ہو کر رہ گیا ہے۔ اس رویے کا انحصار کسی شخص کی پہلے سے طے شدہ سیاسی وابستگیوں اور مفادات کے ساتھ ساتھ آئین کی تشریح کرنے سے بھی ہے۔ٹی وی اسکرین پر روزانہ چلنے والے سیاسی ڈرامے سے یہ رحجان تقویت پکڑتا ہے کہ یہ امر سیاسی جنگ جیتنے سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور سیاسی میدان میں کچھ خاندانوں کی بقاکی جنگ بن چکا ہے۔ ان حالات میں منطق اور استدلال کی جگہ جذباتی اشتعال نے لے لی ہے جو چیزوں کو کسی بھی طریقے سے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے مطابق ڈھالنے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔

پانامہ اسکینڈل کی طرح براڈ شیٹ میں کئے گئے انکشافات کے بعد طرح طرح کے خیالات سامنے آرہے ہیں۔ ایسا شاذونادر ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ سامنے آنے والے اہم عوامل سے پیدا ہونے والی مایوسی کا جائزہ لیا جا سکے اور ماضی میں کی گئی غلطیوں ، جرائم اور بدعنوانی کی مستقبل میں روک تھام کے حوالے سے بحث ومباحثہ کی راہ ہموار کی جائے لیکن ہم گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے کوششوں کا آغاز کیا گیا ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اس دلدل سے نکلنے اور درست سمت میں آگے بڑھنے کے لئے کوئی ایسی تحریک شروع ہی نہیں کی گئی جس پر عمل پیرا ہو کر ایک ایسا راستہ تلاش کیا جا سکے جس پر چل کر ہم ماضی کے ناقابلِ برداشت بوجھ سے چھٹکارا پا سکیں۔ درحقیقت ماضی کے کھلاڑیوں کی یہ لڑائی جرائم اور بدعنوانی کی ایک نئی اصطلاح ترتیب دینے کی کوشش ہے جس کی بدولت ان کرپٹ اور بدعنوان سیاستدانوں کے لئے ،جنہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے دوران مالی مراعات و فوائد حاصل کئے ،اُن کیلئے ایک پھر راہِ فرار ممکن ہو سکےلیکن ایسا ہونا شاید ممکن نہ ہو۔ یہ لوگ جتنی مرضی کوشش کریں انہیں اپنے اہداف کے حصول میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ایسے اقدام کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے جب ایک خراب ماحول میں عقل اور منطق کو کسی کے ناشائستہ ایجنڈے کے تابع کردیا جاتا ہے تو پھر اخلاقیات کہیں گم ہو کر رہ جاتی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے ہی جذبات کی لہروں میں بہہ جائے۔

ان وجوہات سے مزید تفریق اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے جن کی جڑیں وقت گزرنے کے ساتھ اور گہری ہو جاتی ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ایسے تنازعات کے گرد گھوم رہا ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید پیچیدگیاں بڑھتی جا رہی ہیںکیونکہ عقل واستدلال کو تفرقہ مٹانے اور ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا حوصلے کے ساتھ سامنا کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جا رہا۔

ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ کسی بھی تحریک میں جذبہ نہ ہو تو اس پر جمود طاری ہو جاتا ہے جو بدبو پیدا کرتا ہے جس کا سامنا ہم آج کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک بھول بھلیوں میں گم رہیں گے؟اس تصادم کی فضامیں چند پہلو بالکل واضح ہیں۔ پاکستان کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے بے رحمی کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے وطن عزیز کے ساتھ یہ کھلواڑ کیا وہ آج اس حقیقت کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ قومی مجرم اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کے بجائے الٹا سیاسی نظام کو للکار رہے ہیں کہ ان کے خلاف جان بوجھ کر کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ حتی کہ اِن لوگوں نے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کو بھی اس لئے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ شاید ان کو جسٹس قیوم والی عدالتوں جیسا انصاف دوبارہ مل سکے۔ یہ سارا کھیل ایک مذموم پلان کے مطابق کھیلا جا رہا ہے۔

پاکستان کو ازسرنو بحال کرنا یقیناً ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک عمارت نئے سرے سے کھڑی کرنی ہو جس کی بنیادیں مضبوط اور دیرپا ہوں۔ لیکن اگر ہم اسی طرح تقسیم درتقسیم رہے تو پھر باہمی اشتراک سے آگے بڑھنے کی راہیں مفقود ہو جائیں گی۔ ان حالات میں صرف ایک ہی صورت بچتی ہے کہ ہر حال میں آگے بڑھا جائے کیونکہ ایک وقت آتا ہے جب پیچھے مڑ کر دیکھنا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے ہم وہ لکیر عبور کر چکے ہوں لیکن پاکستان کو مراعات یافتہ طبقے کے چنگل سے واگزار کروانے کے لئے مستقل مزاجی اور قابلِ اعتماد حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کے علاوہ اور کوئی متبادل اب موجود نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آنے والے تضادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد اب ایک قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ان سیاستدانوں کے پاس کوئی واضح پلان نہیں اور وہ تفریق اور تضادات کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ مفاد پرست سیاسی ٹولہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے بجائے اب ضمنی انتخابات اور سینٹ انتخابات میں حصہ لینے پر راضی ہے۔ لانگ مارچ کا فیصلہ بھی ان کے باہمی اختلافات کی نذر ہوچکا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز کی مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مخالفت کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مفاد پرست سیاسی ٹولے کا اتحاد اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

ہمیں اب وقت ضائع کئے بغیر عملی اقدامات کی طرف آنا ہو گا۔ ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کے لئے احتساب اور اصلاحات پر مشتمل گورننس پلان کو تیزرفتاری کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا۔ مفاد پرستوں پر مبنی سیاسی ٹولے کی آہ وبکا پر وقت ضائع کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین