• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عباس اطہر!…تمہیں رخصت ہوئے بھی ایک ہفتہ گزر گیا اور تم پہ بے شمار کالم اور ایڈیٹوریل لکھے گئے۔ تم نے ہم نے صحافت اور سیاست کی زندگی ایک ساتھ گزارنی1960ء کی دہائی میں شروع کی تھی۔ تم اس وقت زاہد ڈار کی طرح تم بھی بہت اچھے شاعر، خاص کر نئی نظم کے شاعر مشہور ہوئے تھے۔ میں نے بھی نیا نیا ادب میں قدم رکھا تھا۔ ہم لوگ کبھی ہفت روزہ مساوات کے دفتر، کبھی ٹی ہاؤس اور کبھی میرے گھر اکٹھے ہوتے، افتخار جالب ہم سب کے گرو تھے۔ تم اور زاہد ڈار ایسے شاعر رہے ہو جن کی نظمیں ہم نے لکھی ہوئی دیکھی ہیں، تم دونوں نے کبھی نظم پڑھ کر نہیں سنائی۔ تم تو ادب پر بات بھی نہیں کرتے تھے۔ حنیف رامے کے دفتر میں بھی کم کم ہی بولا کرتے تھے بلکہ مجھے اچنبھا ہوا جب تم نے ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کمپیئر کرنا شروع کیا اور بہت خوب کیا۔ یہ میں نے کیا کیا۔ زندگی کے پچاس سال ایک دم گزار دیئے نہیں عباس اطہر، تم ہی نہیں مجھے یوسف کامران اور عبداللہ ملک کے علاوہ میرے بیٹے بھی ڈانٹیں گے کہ اتنی آسانی اور اتنی جلدی گزرنے والی زندگی تو تمہارے نصیب میں نہیں تھی۔ تم منو بھائی کو اپنے ساتھ مساوات میں لے گئے، تم نے آزاد میں منیر نیازی کو کالم لکھنے پہ راضی کیا۔ تم نے جتنی نظمیں بھٹو صاحب پہ لکھی ہیں اتنی تو کسی نے بھی نہیں لکھیں۔ تم نے بھٹو صاحب کی سالگرہ پر جیل میں بیٹھ کر نظم لکھی تھی ”آج اس کی سالگرہ کا دن ہے“ تم نے اپنی شاعری کی ابتدا بہت خوبصورت نظم سے کی تھی ”نیک دل لڑکیوں“ تمہیں خبر بھی نہیں کہ جس دن تم نے زندگی سے دامن چھڑایا اس دن شمیم حنفی نے اسکیپ پہ مجھے تمہاری یہ نظم پوری سنا دی تھی۔ دیکھو تو ہندوستان میں بھی تم پہ کتنا کچھ لکھا گیا۔ میں ممبئی میں تھی تو الیاس شوقی بھی تمہاری نظمیں سنا رہا تھا۔
مجھے تو تمہاری شادی سے لے کر، تمہاری پہلی بیوی کے انتقال اور اس کے بعد کی زندگی کا ایک ایک لمحہ چاہے تاج پورہ میں گزرا ہو کہ امریکہ میں کہ جیل میں کہ کسی اخبار میں، سب واقعات قطار بناکر میرے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔ جب تم نے بھٹو صاحب پہ نظموں کی کتاب ”کہا سہا“ کے عنوان سے شائع کی تھی۔ مجھے یاد ہے گوالمنڈی کی ایک بیسمنٹ میں سے تم کتابوں کے بنڈل نکلوا رہے تھے۔ بھٹو صاحب کو ابھی پھانسی نہیں ہوئی تھی۔ اچانک ایک ملٹری کی گاڑی آئی، ساری کتابیں اٹھاکر وین میں ڈالیں اور تمہیں بھی ساتھ لے گئے۔ میں ایک کتاب ہاتھ میں پکڑے دیکھتی رہ گئی۔ کئی سال بعد جب تم جیل سے رہا ہوئے تو اس وقت بھی ضیاء الحق کا مارشل لا چل رہا تھا۔ اب مجھ پر سیکورٹی لگی ہوئی تھی۔ ایک جیپ آگے اور ایک موٹر سائیکل پیچھے، میں اپنی گاڑی چلاتی ہوئی دفتر اور بازار جایا کرتی تھی۔ اب تمہارا دل پاکستان سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ تم اور جوہر میر امریکہ جانے پہ تلے ہوئے تھے۔ میں بھی بہت ڈری ہوئی تھی کہ مجھے روز روز، بچوں کو مار دینے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ تم میرے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لے گئے۔ اپنے پاس دو سال تک رکھا اور پھر اسے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئے ہیوسٹن بھیج دیا۔ مجھے یاد ہے کس محبت سے تم اسے اپنے ساتھ مین ہٹن اپنی ٹریول ایجنسی پر لے جایا کرتے تھے۔
بے نظیر آئی تو بہت سے پرانے بچھڑے پنچھی واپس آنے لگے۔ فہمیدہ ریاض، احمد فراز اور تم اپنے اپنے آشیانے کی سمت لوٹے۔ تم نے اور منو بھائی نے مل کر ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھولی۔ بی بی پر دستاویزی فلمیں بھی بنائیں۔ کام بہت نہیں کرنا آیا، واپس صحافت کی جانب تم دونوں مڑ گئے۔ دو ڈھائی سال ہوئے، جب تم اسلام آباد آئے تو ہم نے اپنی اپنی زندگی کے ورق پلٹنے شروع کئے۔ ایک صدماتی خبر بھی سنائی کہ ڈاکٹروں نے تمہیں کینسر تشخیص کیا ہے۔ تم سہمے ہوئے نہیں تھے تم بددل بھی نہیں تھے مگر دو چھوٹے بچوں کے بارے میں فکرمند تھے۔ تمہارے ادارے نے تمہاری بہت دلداری کی۔ سارے صحافیوں اور دوستوں نے بقول حسن نثار تمہیں دیکھ کر اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے تھے اور پھر تم نے اپنی آنکھیں ہی بندکرلیں مگر اچھا ہوا کہ تم نے اس ملک میں الیکشن نہیں دیکھے۔ ہر چند تم عورتوں اور نوجوانوں کی بھرپور قطاریں دیکھ کر خوش ہوتے مگر جب یوں ہوا کہ کراچی میں ایک ایک یونٹ میں دو دو لاکھ پڑتے سنے گئے۔ جب نوشہرہ میں 271% ووٹ کا ہم نے سنا، جب ایک دفعہ پھر پولیس اور رینجرز ناکام ہوگئے کراچی میں ڈبہ اٹھانے والوں کے سامنے، جب دیر میں ووٹ ڈالنے سے عورتوں کو منع کرنے والوں میں پیپلزپارٹی بھی شامل تھی۔ اس پارٹی نے کوشش کی کہ تمہاری نظم ”بھٹو کی بیٹی آئی ہے“ کا جذباتی فائدہ اٹھایا جائے، مگر یہ جذباتیت کب تک جبکہ پنجاب کا چیئرمین ایسا شخص ہو جس نے کبھی پیپلزپارٹی کا نام ہی نہ لیا ہو۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ بھٹو کے آخر زمانے میں یاسین وٹو کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا تھا۔
تم خوش نصیب ہو عباس اطہر! تم نے پارٹی کی ایسی ذلت نہیں دیکھی۔ تم نے سیکولر خود کو کہلوانے والی پارٹی کے سربراہ کو پردے میں رہتے ہوئے نہیں دیکھا۔ تم نے پارٹی کے نام پر بظاہر لیڈروں کو پانچ سال تک اپنی کوٹھیوں اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کرتے۔ پارٹی اور بی بی کے نام کو بلیک میل کرتے نہیں دیکھا۔ مگر ایک بات پر افسوس ہے کہ تم زندہ ہوتے تو عوام کی جمہوریت کے لئے بے پناہ محبت کو دیکھ کر دوبارہ جی اٹھتے۔ میں معافی چاہتی ہوں تم نے مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کا کہا مگر میں اپنی جگہ کبھی بدلتی نہیں ہوں۔ دیکھو اگر میں یہاں نہ ہوتی تو یہ کالم کون لکھتا۔ تمہاری اور ہم سب کی محبتوں کو کون یاد کرتا۔ تمہارے تمام کلام کا مجموعہ مجھے نہیں مل رہا۔ کوئی پڑھنے والا تلاش کرکے بھیج دے تو میں ممنون ہوں گی!
تازہ ترین