• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میانمار کی مسلح افواج نے ایک بار پھر ملک میںجمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ فوجی جنتا اور حزب اختلاف کے دھڑوں کا موقف ہے کہ نومبر2020ءمیں ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی۔ فوج کے سربراہ جنرل نے تمام اختیارات سنبھال لئے ہیں۔ میانمار 1962ءمیںآزادی کے بعد سے2011ءکے انتخابات تقریباً50 برس تک فوجی آمریت کے زیر تسلط رہا۔ 2011ءکے عام انتخابات کے بعد بھی سول حکومت کی راہ میں مختلف رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں اور آنگ سانگ سوچی کو نظر بند رکھا گیا۔ میانمار کے فوجی ٹی وی چینل نے اپنی تازہ نشریات میں بتایا کہ فوجی حکومت حالیہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کا ازالہ کرنے کے بعد ایک سال کے اندر عام انتخابات کا انعقاد کرا دے گی۔آنگ سانگ سوچی نے ایک بیان میں کہا کہ میانمار کی فوجی جنتا ملک میں جمہوری حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ دوبارہ ملک پر اپنی گرفت چاہتے ہیں۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے میانمار کی فوجی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر گرفتار سیاسی رہنمائوں کو رہا کیا جائے اور ملک میں جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھا جائے بصورت دیگر سخت حالات پیش آ سکتے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلیکن نے بھی میانمار کی عسکری قیادت کو ملک میں جمہوری حکومت کو بحال کیا جائے ،گرفتار رہنمائوں کو رہا کیا جائے۔ دیگر عالمی رہنمائوں سمیت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتھونی گیئریس نے بھی سیاسی رہنمائوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

میانمار میں موجود سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ نومبر کے عام انتخابات میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور آنگ سانگ سوچی کی جماعت کو چار سو بارہ نشستوں کی پارلیمان میں تین سو چھیالیس نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ میانمار میں فوجی قیادت جمہوری عمل سے خائف نظر آتی تھی اس لئے جمہوری لیگ کی انہیں فتح قبول نہ تھی۔ اس لئے حکومت کو برطرف کر کے پھر ملک پر آمریت مسلط کر دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ 2016ءمیں آنگ سانگ سوچی نے امریکہ کے دورہ کے دوران یہ کوشش کی تھی کہ امریکہ میانمار پر سے اقتصادی پابندیاں اُٹھاتے ہوئے میانمار کی فوجی جنتا پر بھی شرائط عائد کرے تاکہ مستقبل قریب میں میانمار پر فوجی آمریت تسلط قائم نہ کر سکے۔

آنگ سانگ سوچی کا تعلق میانمار کے سیاسی خاندان سے ہے۔ بعد ازاں ملک کے پہلے عام انتخابات میں سوچی کی سیاسی جماعت کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور فوجی حکومت نے سول حکومت کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے اقتدار منتقل کرنے کا اعلان کیا مگر آنگ سانگ سوچی کے لئے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ و ہ صدر یا وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکتی تھیں کیونکہ میانمار کے آئین کے مطابق اگر کوئی شہری دہری شہریت رکھتا ہے یا اس کے اہل خانہ رکھتے ہیں تو وہ ملک کا سربراہ نہیںبن سکتا۔ آنگ سانگ سوچی کی پارٹی کی کامیابی کے باوجود وہ صدر نہ بن سکی تھیں، مگر 2015میں ان کی پارٹی پھر فتح یاب ہوئی فوجی رہنمائوں کی خواہش رہی کہ ملک کی سیاست میں ان کا کلیدی کردار باقی رہے وہ مکمل طور پر سول حکمرانی کو پسند نہیں کرتے تھے اس لئے آئین میںبعض ترامیم عسکری قیادت کی مرضی سے کی گئی تھیں۔

آنگ سانگ سوچی کو ان کی جمہوری جدوجہد پر طویل نظر بندی کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے نوبل انعام سے نوازا گیا ۔ بعد ازاں امریکی سول ایوارڈ بھی دیا گیا۔ مگر میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم و بربریت کے واقعات اور اس تمام معاملے پر آنگ سانگ سوچی کی مجرمانہ پراسرار خاموشی نے بین الاقوامی طور پر سوچی کے سحر انگیز شخصیت پر سوالیہ نشان ثبت کردیا۔

آنگ سانگ سوچی کے بارےمیں امریکی سفارت کا کہنا تھا کہ وہ لگتا ہے کہ کسی بلبلے میں محصور ہیں اور کسی محاصرہ میں سانس لے رہی ہیں۔ سوچی ایک بڑی سیاسی جماعت کی رہنما ہیں۔ مغربی تعلیمیافتہ اور برما کی تاریخ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ دنیا میں ان کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بھی نمایاں ہیں مگر ان کی تمام سیاسی تحریک نظربندی، غیر ملکی حمایت کے حصول اور دیکھو ،انتظار کرو کے دائروں میں گھومتی نظر آتی ہے۔ تذبذب کا شکار یہ فعال سیاسی رہنما میانمار کی فوجی جنتا کو اسی امر پر تاحال قائل کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں کہ میانمار کا مستقبل جمہوری سیاسی عمل سے وابستہ ہے اور بدلتی دنیا کے تقاضوں کی روشنی میں میانمار کے عوام کو ان کا حق دیا جائے۔اگر سوچی ایسا سوچنے لگیں تو انہیں عالمی سطح پر پھر حمایت حاصل ہوسکتی ہے اور روہنگیا کے مسئلے کو بھی وہ انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے عوام کی رائے ہموار کرسکتی ہیں۔

تازہ ترین