اسلام آباد (انصار عباسی) کیا وفاق یا خیبر پختونخوا کی حکومت نے سپریم کورٹ کو منگل کے دن بی آر ٹی کیس میں عدالت کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے تیار کردہ اُس رپورٹ سے آگاہ کیا تھا جس میں نقصان کی نشاندہی کی گئی ہے؟
رپورٹ میں منصوبے کی خراب پلاننگ، غیر شائستہ انداز سے برتی جانے والی جلدبازی، حفاظتی اقدامات کا خیال نہ رکھے جانے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات، غیر مجاز تبدیلیوں اور اربوں روپے کے نقصانات کا ذکر کیا گیا تھا۔
منگل کو سپریم کورٹ نے نیب کو بی آر ٹی پروجیکٹ کے حوالے سے تحقیقات سے روک دیا اور نشاندہی کی کہ پشاور ہائی کورٹ کا پروجیکٹ کے حوالے سے فیصلہ قیاس آرائی پر مبنی ہے۔
سپریم کورٹ نے کے پی حکومت کی پٹیشن منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے میں پروجیکٹ سے متعلق غیر قانونی اقدامات اور کرپشن کی نشاندہی کی تھی اور ایف آئی اے کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے۔
کے پی حکومت نے منگل کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے پروجیکٹ کو غیر قانونی قرار دیا ہے جبکہ ضابطے کے تمام اقدامات وفاقی اور صوبائی حکومت نے مکمل کر رکھے ہیں۔
گزشتہ سال سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو اُس تحقیقات سے روک دیا تھا جس کا حکم پشاور ہائی کورٹ نے دیا تھا۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے نشاندہی کی ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ قیاس آرائی پر مبنی ہے لیکن کے پی حکومت کے وکیل یا وفاق یا صوبائی حکومت کے کسی بھی نمائندے نے سپریم کورٹ کو اس بات سے آگاہ نہیں کیا کہ گزشتہ سال آڈیٹر جنرل نے بی آر ٹی پروجیکٹ میں کس بات کی نشاندہی کی تھی۔
اے جی پی نے بی آر ٹی پشاور کے حوالے سے اپنی آڈٹ رپورٹ میں نقصانات، زیاں، غیر مجاز تبدیلیوں، اربوں روپے کی بے ضابطہ ادائیگیوں وغیرہ کا حوالہ دیا تھا اور بتایا تھا کہ پروجیکٹ کی منصوبہ بندی میں نقائص تھے اور مفصل انجینئرنگ ڈیزائن (ڈی ای ڈی) کی غیر موجودگی میں ہی تعمیراتی کام شروع کر دیا گیا۔
اے جی پی نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے بروقت اس خطرے کی نشاندہی کی تھی کہ عام انتخابات 2018ء کی وجہ سے سیاسی دبائو میں آ کر منصوبے کی تعمیرات کے معاملے میں جلدبازی سے ڈیزائن اور پروجیکٹ پر عملدرآمد کے معاملے میں نقصانات ہوں گے۔
اے ڈی بی نے اس خواہش کی بھی مخالفت کی تھی کہ مفصل انجینئرنگ ڈیزائن کی تیاری ابتدائی ڈیزائن (پرلیمنری ڈیزائن) کی بنیاد پر کی جائے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق، ان تمام باتوں کے باوجود صوبائی حکومت نے اس انتباہ پر دھیان نہ دیا اور اپنے اقدامات سے یہ دکھا دیا کہ منصوبہ بندی کا عمل اس قدر ناقص تھا کہ اس میں منصوبے کی تکمیل کا موزوں وقت بھی نہیں بتایا جا سکا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعمیرات کے پورے مرحلے میں یہ بات دیکھنے کو ملی ہے کہ (منصوبے کیلئے منتخب کیے گئے) تنگ راستہ ’’رائٹ آف وے‘‘ کیلئے کسی بھی صورت موزوں آپشن نہیں تھا کہ بی آر ٹی کوریڈور تعمیر کیا جا سکے۔ اب یہ بات دیکھی جا سکتی ہے کہ کئی اسٹیشنوں پر اسٹیشن کا داخلہ نامناسب لگتا ہے اور یونیورسٹی روڈ پر دکانوں کے سامنے اور رہائشی گلیوں کے سامنے اور حیات آباد ٹائون شپ میں گھروں کے کونے پر پورا ڈھانچہ نظر آرہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 7.9؍ ارب ڈالرز مالیت کی جو بسیں بی آر ٹی پروجیکٹ کیلئے قبل از وقت خریدی گئیں اب ان کی وارنٹی کا عرصہ بھی ختم ہو جائے گا۔ کرایے سے اب تک کوئی آمدنی بھی نہیں ہوئی اور ان بسوں میں ٹوٹ پھوٹ بھی برداشت کرنا پڑے گی۔
یہ بسیں جو قبل از وقت ہی خریدی گئیں، ان میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے حالانکہ انہیں اب تک استعمال بھی نہیں کیا گیا، ایک اور پریشان کن صورتحال یہ بھی ہے کہ 33؍ ملین ڈالرز کی رقم خرچ کی گئی لیکن اب تک 169؍ بی آر ٹی بسیں نہیں ملیں کیونکہ پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے غلط تاریخیں دی جاتی رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پروجیکٹ پر غور 2013-14ء میں شروع کیا گیا تھا لیکن آنے والے برسوں میں 2017ء تا 2019ء میں کام کے آغاز کے وقت پروجیکٹ کا کیا ہوگا اس کی پیش بینی نہیں کی گئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بی آر ٹی کوریڈور کے ابتدائی ڈیزائن کیلئے شروع کیے گئے منصوبوں کے حوالے سے اور بعد میں ڈی ای ڈی کے مرحلے پر آڈٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ پیسے ضایع کیے گئے ہیں کیونکہ منصوبہ بندی کے عمل میں بصیرت کا فقدان تھا۔
رپورٹ میں جن نقصانات کی نشاندہی کی گئی ہے وہ یہ ہیں:… 10.4؍ ارب روپے مالیت کی غیر مجاز تبدیلیوں، کنکریٹ کی اضافی مقدار کی فراہمی کیلئے ہونے والے 20؍ کروڑ روپے کے نقصان، توڑ پھوڑ کے بعد حاصل ہونے والے سامان کی ریکوری نہ ہونے سے ہونے والے 5؍ کروڑ 48؍ لاکھ روپے کے نقصان، تنخواہوں کے متعین کردہ نظام کی عدم موجودگی میں کی جانے والی ساڑھے 9؍ کروڑ روپے کی ادائیگیوں، سیونگ اکائونٹ میں رکھی رقم سے حاصل ہونے والا ایک کروڑ 20؍ لاکھ روپے کا منافع سرکاری خزانے میں جمع نہ کرانے، افسران کو غیر مجاز انداز سے ساڑھے 4؍ کروڑ روپے کی ادائیگی، مالیاتی گوشواروں میں حاصل ہونے والے ایک کروڑ 20؍ لاکھ روپے کے سود کا ذکر نہ کرنا، سالانہ 1.6؍ ارب روپے کی سبسڈی کے متعلق منظور شدہ پی سی ون اور بزنس ماڈل میں میں تضادات ہونا۔
تزئین و آرائش پر 71؍ کروڑ 60؍ لاکھ روپے کا فضول خرچ، سڑکوں کی تعمیرات اور بجلی کے کام، 7.9؍ ارب ڈالرز خرچ کر کے بی آر ٹی پروجیکٹ کی بسیں قبل از وقت خریدنا، بسوں سے کوئی آمدنی بھی نہیں ہوئی اور ان کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو چکی ہے جبکہ ان کا وارنٹی کا عرصہ بھی ختم ہونے والا ہے۔
بسیں سڑکوں پر آئی ہی نہیں اور ان کی قدر میں ہونے والی کمی سے ہونے والا ایک کروڑ روپے کا نقصان، کارکردگی کا جائزہ لیے بغیر 61؍ کروڑ 50؍ لاکھ روپے اور 1.97؍ ملین ڈالرز کا دیا جانے والا تعمیرات کی نگرانی کا ٹھیکہ؛ جرمانے اور لیکوئڈٹی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہونے والے 1.9؍ ارب روپے مالیت کے نقصانات وغیرہ۔
رپورٹ کے مطابق، 2016ء کے دسمبر میں آڈیٹرز کو بھیجی گئی ایک ای میل میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نہیں چاہتا کہ ڈی ڈی ابتدائی ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا جائے۔
منصوبہ بندی کے فقدان کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ 25؍ ستمبر 2017ء کو اپنے میمو میں اے ڈی بی نے کہا تھا کہ ابھی ڈی ای ڈی تیاری کے مراحل میں ہی تھا کہ صوبائی حکومت نے کسی طرح اصل پی سی ون کی منظوری اے ڈی بی کے 587؍ ملین ڈالرز کے تخمینے سے بھی کم میں دیدی۔
رپورٹ کے مطابق، ابتدائی ڈیزائن میں بھی ڈی ای ڈی کنسلٹنٹس کو تکمیل کا مناسب وقت نہیں دیا گیا جو عموماً اتنے بڑے منصوبے کے تفصیلی ڈیزائن کی تیاری کیلئے دیا جاتا ہے۔
فروری 2017ء میں شروع ہونے والا ڈی ای ڈی کنٹریکٹ فروری 2018ء میں مکمل ہونا تھا لیکن غیر ضروری جلدبازی کی وجہ سے سول ورکس نومبر 2017ء میں شروع کیا گیا حالانکہ اس وقت تک تکمیل کے ڈیزائنز بھی دستیاب نہیں تھے۔
پروجیکٹ کے رہنما اصولوں کے مطابق افرادی قوت ا ور خام مال حاصل نہیں کیا گیا، رپورٹنگ، فنانشل مینجمنٹ اور کوالٹی کنٹرول جیسے اہم جزو کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔ آڈٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پروجیکٹ کے بہترین مالیاتی انتظامات کو یقینی بنانے کیلئے حکام فنانشل مینجمنٹ مینوئل پر عمل میں ناکام ہوگئے۔
اس کا مشورہ اے ڈی بی نے ہی دیا تھا۔ پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے ابتدائی تخمینہ 49.34؍ ا رب روپے لگایا گیا تھا جو بعد میں تبدیل کرکے 66.4؍ ارب روپے کر دیا گیا۔