• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ایشو پر کسی بھی قیادت کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ اسے حالات کیسے ملے تھے؟ یوں ان حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے جن میں آصف زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں نے کشمیریوں کا مقدمہ لڑا اور اب عمران خان لڑرہے ہیں۔

زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں میں پاکستان کے اندر دہشت گردی زوروں پر تھی۔

دنیا پاکستان کو مذہبی انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کا گڑھ سمجھ رہی تھی جبکہ دوسری طرف انڈیا کو لبرلزم اور سیکولرزم کا مسکن، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھا جارہا تھا جبکہ شائننگ انڈیا کا ڈرامہ زوروں پر تھا تاہم عمران خان کو پاکستان کا اقتدار ایسے وقت میں ملا کہ دہشت گردی کا جن بڑی حد تک قابو ہو چکا تھا اور دوسری طرف مودی سرکار کا بھیانک چہرہ بےنقاب ہو چکا تھا اور دنیا میں پاکستان کے برعکس ہندوستان عدم برداشت، مذہبی پراسیکیوشن اور انتہاپسندی کے گڑھ کے طور پر سامنے آیا تھا۔

زرداری اور نواز شریف یاپھر جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں بھی پاکستان پر بھارت میں دراندازی کا الزام لگ رہا تھا لیکن نواز شریف کی حکومت کے دور سے پاکستان سے حریت پسندوں کے مقبوضہ کشمیر میں جانے کا سلسلہ اس سختی کے ساتھ روک دیا گیا کہ اب بھارت پاکستان کو اس ایشو پر مجرم نہیں بناسکتا۔

گزشتہ چند سالوں سے وہ دنیا کے سامنے پاکستان سے مداخلت کا کوئی ثبوت پیش نہ کرسکا۔ جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو کشمیریوں کی جدوجہد خالص اندرونی اور مظلومانہ جدوجہد بن چکی تھی۔ وانی کی شہادت کے بعد نہ صرف تمام کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے تھے بلکہ ان کی تحریک میں ہر طبقے کے لوگ اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔

یوں مظلوم کشمیریوں کے مقدمے کو دنیا میں لڑنا اور ان کی جدوجہد کو مارکیٹ کرنا نسبتا بہت آسان ہوچکا تھا۔5 اگست 2019کے مودی کے ظالمانہ اقدام کے بعد فاروق عبدﷲ، محبوبہ مفتی اور اسی نوع کے دیگر بھارت نواز کشمیری رہنما تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندوستان مخالف کیمپ میں آگئے اور یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر کی تقریباً تمام قیادت غاصب ہندوستانی سرکار کے خلاف یک زبان ہوگئی۔یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ عمران خان کی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کی ایسی صورت حال ملی کہ ہر طرح کی کشمیری قیادت، ہندوستان کے خلاف یک زبان تھی۔

زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں میں امریکہ پاکستان سے شدید ناراض تھا۔

زرداری کے دور میں سی پیک کا منصوبہ بنا اور نواز شریف کی حکومت میں اس پر کام کا آغاز ہوا۔ یوں امریکہ کی برہمی عروج پر رہی اور چین کے تناظر میں اس کی ہندوستان کے ساتھ قربت روز بروز بڑھ رہی تھی۔چونکہ ماضی کی امریکی حکومتوں کی پوزیشن واضح نہیں تھی کہ وہ افغانستان میں کیا چاہتے ہیں، اس لئے پاکستان کی افغان پالیسی بھی مبہم رہی، جس کی وجہ سے پاکستان ڈبل گیم کے الزام کی زد میں رہا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار پالیسی واضح کرکے افغانستان سے انخلا کا ارادہ ظاہر کیا اور اس معاملے میں پاکستان سے مدد چاہی۔ پاکستان نے ڈٹ کر مدد کی۔ یوں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ رک گیا تھا۔

یوں جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو پہلی مرتبہ یہ خوشگوار تبدیلی آئی تھی کہ طالبان سے مصالحت کے معاملے پر امریکہ نہ صرف پاکستان کا محتاج بن گیا تھا بلکہ ٹرمپ سے لے کر زلمے خلیل زاد تک سب پاکستان کے کردار کی ستائش بھی کررہے تھے۔ یوں عمران خان کے پاس یہ موقع تھا کہ افغانستان میں تعاون کے بدلے امریکہ کے ذریعے ہندوستان پر دبائو بڑھاتے لیکن عملا معاملہ الٹ رہا۔

زرداری اور نواز شریف حکمران تھے تو ہندوستان نے پاکستان کو ممبئی،اجمل قصاب ،پٹھان کوٹ اور اسی نوع کے دیگر واقعات کی آڑ لے کر عالمی سطح پر کٹہرے میں کھڑا کیا تھا لیکن عمران خان ایسے عالم میں حکمران بنے جب کہ کلبھوشن یادیو کی صورت میں پاکستان کے اندر بھارتی دراندازی کا ایک شاہکار ثبوت ہاتھ میں تھا۔

پلوامہ کے بعد ہندوستان نے جس طرح جارحیت کا مظاہرہ کرکے جنگ چھیڑنے کی کوشش کی اور جواب میں جس طرح پاکستانی ائیرفورس نے اپنے فضائی حدود میں ہندوستان کے دو جہاز گرائے تو اس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کا مورال بہت بلند ہوگیا تھا جبکہ ہندوستان نہ صرف ایک جارح کے طورپر سامنے آیا بلکہ اسے ذلت آمیز سبکی اور خفت بھی اٹھانی پڑی۔ماضی کی ہر حکومت کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اور دیگر فورمز پر اٹھاتی رہی اور ہر حکمران جنرل اسمبلی کی تقریروں میں بھی تذکرہ کرتا رہا لیکن 5اگست کے مودی کے اقدام کے بعد چین کی کوشش سے پہلی مرتبہ یہ ایشو سلامتی کونسل، جو اصل فورم ہے، تک چلا گیا لیکن ناکام سفارتکاری کی وجہ سے پاکستان سلامتی کونسل سے اپنے حق میں یا انڈیا کے خلاف قرارداد بھی منظور نہ کروا سکا۔

انڈیا اور کشمیر کے معاملات میں بنیادی کردار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ہوا کرتا ہے لیکن زرداری کی حکومت تھی یا نواز شریف کی، سول ملٹری قیادت ایک دن کے لئے بھی حقیقی معنوں میں ایک پیج پر نہیں رہی۔

اس کے برعکس عمران خان کو وزیراعظم بنانے سے لے کر آج تک سول ملٹری قیادت مکمل طور پر ایک پیج پر ہے۔ یوں زرداری اور نواز شریف چاہتے بھی تو کشمیر کے معاملے پر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے لیکن ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے موجودہ سیٹ اپ کے لئے ایسا کرنا آسان تھا اور ہے۔

یہ شاندار مواقع خوش قسمت عمران خان کی حکومت کے ہی ہاتھ آئے لیکن بیشتر مواقع ضائع ہوئے اور باقی ماندہ ضائع ہونے جا رہے ہیں۔

مودی سرکار کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کئے دو سال ہونے کو ہیں لیکن سونامی سرکار سفارتی یا کسی اور محاذ پر جذباتی تقریروں کے سوا کچھ نہ کر سکی۔ یہ نادر مواقع کیوں ضائع ہوئے، زندگی رہی تو اس سوال کا جواب پھر کبھی۔

تازہ ترین